حلوہ پکاو

کسی ملک کا بادشاہ فوت ہوگیا اور اس بادشاہ کی اولاد بھی نہ تھی کسی کو بادشاہ نے اپنی زندگی میں اپنا ولی عہد بھی نہ بنایا تھا اس لیئے اقتدار کی منتقلی کا بحران پیدا ہوگیا ایک روز سارے وزرا لڑتے الجھتے رہے لیکںن رات دیر کے بعد ایک تجویز پر اتفاق ہوا کہ رات اب گہری ہوچکی ہے تمام وزرا محل میں ٹھریں صبح محل کا دروزاہ کھولیں گے جو دروزاے پر نظر آیا وہ ہی آئندہ کیلےء ملک کا بادشاہ ہوگا۔اس بات کو بھی مدنظر رکھا گیا کہ باہر اس بات کا کسی کو علم نہ ہونے پائے۔
خدا کی قدرت ایک فقیر جو کئی روز محل سے بھیک مانگنے کیلےء محل کے قریب آتا تو دربان اسے سختی سے ہٹادیتے تھے ۔اس فقیر نے سوچا رات محل کے قریب گزاروں تاکہ جب صبح محل کا دروازہ کھلے تو وہ آسانی سے محل میں داخل ہو جائے اور ڈھیر ساری خیرات حاصل کرسکے گا ۔اب جونہی وزرا نے محل کا دروازہ کھولا سامنے فقیر کھڑا تھا وزرا فقیر کو بڑے احترام سے محل کےاندر لے آئے اور ساری بات بتانے کے بعد اسے اپنے ملک کا بادشاہ بنالیا  پہلے تو فقیر نہیں مان رہا تھا بعد میں اس نے کہا کہ میرا یہ کاسا اور پرانا لباس امانتاّ رکھا جائے اور جب میں مانگوں اس وقت دیا جائے۔چنانچہ ایسے ہی کیا گیا۔
اب اس ملک میں فقیر سلطان تھا جسے عنان حکومت معجزاتی طور پر ملی تھی اور وہ امورمملکت چلانے کا اہل نہیں تھا۔لیکن بے شمار اہل اور قابل لوگ جو اس اہل تھے آپسی جگھڑوں کی وجہ سے اپنے اندر سے کسی شخص کا انتخاب نہ کرسکے ۔حکومت کا پہلا دن تھا وزیر بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بادشاہ سے کہا کہ شاہی فرمان جاری کریں بادشاہ نے کہا پورے ملک میں حلوہ پکاو۔دوسرے دن وزیر پھر بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پھر شاہی فرمان جاری کرنے کو کہا تو بادشاہ نے کہا حلوہ پکاو ۔غرض کہ پورا مہینہ وزیر بادشاہ کے پاس آتا رہا اور بادشاہ حلوہ پکانے کا ہی کہتا رہا ۔ایسی صورتحال میں عوام تنگ آگئی ہمسایہ ممالک کو جب اس نااہل بادشاہ کا پتہ چلا تو انہوں نے اپنی فوجیں اس ملک میں اتار دیں اور  ماسوائے اس محل کے سارے ملک پر قبضہ کرلیا اب وزیر آخری بار بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ساری صورتحال بادشاہ کو بتائی اور بتایا کہ اگر محل کا دروازہ کھولا جائے گا تو دشمن ملک کی فوج پورے ملک پر قابض ہوجائے گی۔اور ساتھ ہی پوچھا کہ اب کیا حکم ہے بادشاہ نے پوچھا کہ کیا تھوڑا بہت راشن محل میں ہے  تو وزیر نے کہا جی تھوڑا سا راشن ہے تو بادشاہ نے کہا  حلوہ پکاو ۔وزیر نے سوچا شائد بادشاہ سلامت کی اس بات میں مصلحت ہوگی چنانچہ حلوہ پکوایا گیا جب بادشاہ حلوہ کھا چکا تو اپنے پرانے کپڑے اورمنگوائے کپڑے پہنےاور محل کا دروازہ کھولنے کا کہا اور کہا حکومتیں کرنا اور جنگیں لڑنا بادشاہوں کا کام ہے ہم تو فقیر لوگ ہیں اورمحل میں داخل ہوتی دشمن فوج سے خیرات لی اور چلتا بنا.
میرے کپتان کی حکومت کی گزشتہ سال تک کی کارکردگی اس کہانی کے نصف حصے سے متماثلت رکھتی ہے اور اللہ نہ کرے میرے منہ میں خاک ساری کہانی سچ ہوجائے۔تحریک انصاف کی پارٹی کو  اقتدارسمبھالے اب دوسال ہونے کو ہیں ابھی تک حکومت اپنے ہنی مون سے نہیں نکلی اور جب مہنگاہی کے بارے پوچھا جاتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ کرپشن والوں کو نہیں چھوڑوں گا کوئی این آر او نہیں ملے گا جب بجلی گیس اور پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے بارے آہ وبکاہ بلند ہوتی ہے تو حلوہ پکاو کہنے والے کی طرح کہتے ہو کرپشن کرنے والوں کو این آر نہیں ملے گا یعنی جس طرح فقیر ہر بار حلوہ پکانے کا راگ الاپتا اسطرح حکمران ہر سوال پر کرپشن اور این آر او کا مسلسل راگ الاپا  جارہا ہے خان صاحب اور کتنا صبر کریں آپ کی خوبصورت باتوں سے چولھے تو نہیں جلتے ۔کل ہی مدینہ کی ریاست کے دعووں والی آپکی حکومت میں ایک غریب نے بےروزگاری سے تنگ آکر خودکشی کرلی۔اسکا خون کس کے ہاتھ پر ہے۔مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ عوام اپنے مسائل کا حل چاہتی ہے۔
خدارا توجہ کیجیے اور جلدی عوام کو ریلیف دیں
۔ایم کیوایم کے مقبول صدیقی نے اپنی وزارت سےاستعفی دے دیا وزیراعظم نے کہا ہے کہ ایم کیوایم کے تحفظات دور کریں گے ۔خان صاحب عوام کے تحفظات دور کیجیے کسی اور کے تحفظات دور کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی اتحادی جماعتوں کے تحفظات بڑھتے اور بدلتے رہیں گے یقیناّ انہیں ایڈریس کرنا آپکا فرض ہے مگر عوام کی مشکلات فوراّ دور کرنا آپکا فرض عین ہے۔میرے کپتان اتنی بڑی کابینہ اگر عوامی مسائل حل کرنے سے قاصر ہے تو وہ یقیناّ حلوے پکا رہی ہے ۔

بشکریہ روزنامہ آج