472

     ٭ تاریخ کے آئینے میں،سکھوں کااقتدار ٭ 

اگر ہم سکھ مت کی تاریخ کامطالعہ کرتے ہیں تو باباگرونانک کے کردار میں انسانیت ہی نظر آتی ہے، اور محبت کاپیغام ملتا ہے ان کی تعلیم صرف وفا انسانیت تھی ان کے عقیدے سے یہ بات ثابت ہوتاہے کہ انہوں نے خدا کی واحدانیت کوتسلیم کیا۔بابا گرونانک کے حج کے بارے میں بھی ذکر ملتا ہے ،روزے بھی رکھے انہوں نے۔ ہم یہ بات مکمل یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں بابا گرونانک نے اپنی زندگی آپ ﷺ کے بتائے ہوئے اصولوں پر گزاری۔ایک مشہور ہندووودان ڈاکٹر تارا چند جی بیان کرتے ہیں کہ ''یہ حقیقت واضح ہے گرونانک صاحب حضرت بانی اسلام ﷺکی تعلیم اوراسلام سے خود کو مکمل طور پر رنگ لیا تھا۔اس طرح کے بہت سارے حوالے موجود ہیںمگر چند اہم حقائق یہاں پر عیاںکرتا چلو،بابا گرونانک نے مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ میں ایک سال بسر کیا۔باباگرونانک نے بغدادشریف میںچھ سال گزارے ۔آپ نے ایک ،مسلمان بزرگ حضرت مراد ؒکے ہاتھ پربیعت کی اوران کی خدمت میں چھ سال گزار ے،ان سے روحانیت سیکھتے رہے۔دریائے راوی کنارے کرتار پور کاایک قصبہ آباد کیا، جو آج کل تحصیل شکرگڑھ دربار صاحب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔وہاں ایک مسجد تعمیر کرائی اور نماز با جماعت ادا کرنے کے لیے ایک امام مقرر کیا۔بابا گرونانک نے اذان دی ،نماز پڑھی روزے رکھے،جج
ادا کیا تاریخ گواہ کہ بابا گرونانک نے اپنی ساری عمر ایک سچے مسلمان کی طرح گزاری ۔مگر سکھوں نے
اپنی حکومت قائم کرنے1699ءسے لے کر 1801ءتک جس کارگردگی کامظاہر ہ کیا انسانیت شرمندہ
ہے۔ بابا گرونانک کے پیغام کے برعکس ایسے ایسے کارنامے سرانجام دیئے ہیں،کہ انہیں یاد کرتے ہوئے بھی رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔انسانیت اس کی تاب نہ لاتے ہوئے شرم سے منہ چھپاتی لیتی ہے۔باباگرونانک جس امن اورصلح کا پیغام لے کر آئے تھے۔ان کے پیروکار منافق لوگوں نے ان کی تعلیم کے برعکس اپنی خواہشات اور امنگوں پر پیراعمل ہوکروہ گل کھلائے کہ انسانیت شرمسار ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں بے گناہوں کا خون بہایا ،معصوم بچوں کواپنے ظلم کا نشانہ بنایا،بے بس عورتوں اور بوڑھوں پراپنے ظلم کی داستان لکھی ،ہزاروںبے کس شریف زادیوں کی عصمت دری کی گئی ،ہزاروں کی 
تعداد میں ان بچوں کو بھی نہ بخشا گیا جوابھی اپنی ماو¿ں کے پیٹ میں تھے دنیا میں نہیں آئے تھے،ان ماو¿ں کے پیٹ چاک کر ان معصوموں کوٹکڑے ٹکرے کر دیا گیا،ہزاروں ماو¿ں کی گودیں ویران کردی گئی، 
ہز اروں سہاگنوں کے سہاگ اجاڑ دئیے گئے ،ہزاروں کی تعداد میںبے گناہوں کو زندہ جلا کر راکھ کر دیا گیا،اس بربریت کی انتہا دیکھیے کہ قبروں کو کھود کر ان میں مردوں کو باہر نکال کر نذر آتش کیا گیا،ایک معمولی سے حصول جانور کے لئے سیکڑوں انسانوں کو موت کی آغوش میں ہمیشہ ہمیشہ کے سلا دیا گیا ،لا تعدا د دکانیں ،باغات اور پیر خانے تباہ وبرباد کر دیئے گئے یا پھر جلا کر راکھ کے ڈھیر بنا دیئے گئے ، ہزاروں کی تعداد میں مساجد شہید کردی گئیں،بہت سی مساجدمیںسور کاگوشت پھینکا گیا،امن سے بسنے والی ہندوستان کی کئی ریاستوں کو روندڈالا گیا،قرآن مجیدکے ان گنت نسخے نذر آتش کر دیئے،مسلمانوں کو اذانیں دینے ،نمازپڑھنے سے روک دیا گیا،مسلمانوں کوذکر الہی بھی کرنے کی اجازت نہ تھی،اور جبر کا عالم یہ تھاکہ ان دنوں کوئی کلمہ طیبہ بھی نہیں پڑھ سکتا تھا،(گیانی گیان سنگھ نے بیان)کیاایک وقت ایسابھی آیا جب سکھ لوگ مسلمانوں کو پکڑ کر کھا جایا کرتے تھے،''حوالہ پنتھ پرکاش۔ چھاپہ پتھر۔صفحہ نمبر 348ہے''یعنی جو مسلمان سکھ کے ہاتھ لگ جاتے وہ انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر کے کھا جایا کرتے تھے۔ تاریخ شاہد ہے کہ سکھوں کو جب بھی موقع ملا انہوں نے مختلف دیہات پر چھاپے مارمار کر مسلمانوں کا بے تحاشہ کشت وخون کیا،حتی ایک ایک دن میں ہزاروں کی تعداد میںعورتوں،مردوں،بچوں اور بوڑھوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔شہروں کے شہر تباہ وبرباد کر دیئے جن میں،شہرسامانہ،شہرسرہند،سچاننددیوان سرہند،مالیر کوٹلہ پربندہ،سہارن پور،سرہند،شہربٹالہ،ضلع گورداسپورپربندہ،امبیٹہ سمیت وغیرہ وغیرہ
جالندھر کی سیدزایوں ،اور مغلانیوں پر ظلم بربریت کی داستان رقم کی ۔افسوس تاریخ بھی شرمندہ ہے 
راجہ رنجیت سنگھ کے کارنامے ،اپنی بیوی کے پچاس لاکھ کے زیور ضبط کر لئے،ساس سے احسان فراموشی،
جن کے ہاتھ سے تاج پوشی ہوئی ان کی جاگیریں ضبظ کرلیں،راجہ رنجیت سنگھ نے مسلمانوں کی جائیدادیں چھین کر سکھوں کے نام کر دیں،سکھ ملتان کو بے دردی سے چار دن تک لوٹتے رہے اور ظلم کی داستان رقم کرتے رہے حوالہ ''تاریخ خالصہ اردوحصہ سوم صفحہ 92پر''مہاراجہ مسلمانوں سے جو بھی وہ چھین لیتے تھے۔راجہ رنجیت سنگھ نے بھی مساجد بے حرمتی ۔مساجد شہید ،مساجد میں شراب نوشی سمیت مسلمان کو ہر طرح سے اذیت دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔تاریخ کے آئینے میں سکھوں کو جب بھی اقتدار ملا انہوں نے تباہی وبربادی کی تاریخ رقم کی ہے۔خصوصی طور پر مسلمانوں کے ساتھ جو ظلم کیا ہے
انگریز،ہندوسمیت کسی بھی مذہب نے اتنا ظلم نہیں تاریخ شاہد انسانیت بھی شرمندہ ہے سکھوں کے ظلم سے پردہ اٹھاتے ہوئے ۔بابا گرونانک کی تعلیم سے سکھ لوگ کوسوں دور ہیں باباگرونانک جتنی محبت مسلمانوں سے کرتے تھے اس سے ہزار گنا زیادہ نفرت سکھ مذہب نے مسلمانوں کے ساتھ کی ہے۔ تاریخ آج بھی ان کے مظالم سے شرمندہ ہے،انسانیت شرمسار ہے ۔یہ انسان نہیں تاریخ کے آئینے میں 
انسانی شکل میں درندے ہیں۔
 

بشکریہ اردو کالمز