حکومت ہو یا اپوزیشن، اصولی طور پر سیاسی جماعتوں کی ترجیحات کا تعین ملکی حالات اور عوام کی حالت زار کو مدنظر رکھ کر کیا جاتا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس وقت عوام کا اصل مسئلہ سیلاب متاثرین اور شدید مہنگائی ہے، ملکی معیشت کی بحالی بھی ایک سنگین چیلنج ہے، پختونخوا میں شدت پسندی پھر سے سر اٹھا رہی ہے لیکن سیاسی جماعتوں کی ترجیحات پر نظر دوڑانے سے لگتا ہے کہ وہ پاکستان سے ہزاروں میل دور کسی اور ملک میں سیاست کر رہے ہیں۔
حکومت کی بات کی جائے تو سندھ جیسے اہم صوبے میں جس طرح گورنر کی تقرری کی گئی ہے اس سے یہی سوال ذہن میں گھوم رہا ہے کہ عمران خان کے اقتدار سے نکالنے کو آپ نے جمہوریت کی بحالی کا نام دیا، کیا جمہوریت کی بحالی ایسی ہوتی ہے جس میں بغیر اتفاق رائے کے کسی شخص کو گورنر جیسے اہم عہدے پر تعینات کر دیا جائے؟
اس سے تاثر یہی ابھرتا ہے کہ آج تقریباً ہر جماعت پیسوں کے بل بوتے پر آگے والوں کے پیچھے چلنے کے لیے تیار ہو چکی ہے۔
بات کریں اپوزیشن کی تو تحریک انصاف پنجاب اور پختونخوا میں حکومتی سطح پر لانگ مارچ کی بھرپور تیاریوں میں مصروف ہو چکی ہے۔
صرف ان سے کوئی یہ پوچھنے والا نہیں کہ آپ کا صوبہ مالی طور پر ڈیفالٹ ہونے کے قریب ہے، ملازمین کو تنخواہیں دینے تک کے پیسے نہیں، صوبے بھر میں اساتذہ برسر احتجاج ہیں اور سب سے بڑھ کر شدت پسند دوبارہ سے منظم ہو رہے ہیں لیکن ایسے میں آپ اسلام آباد پر ’چڑھائی‘ کر کے کیسے انقلاب لانے کی باتیں کر رہے ہیں؟
پی ٹی آئی پختونخوا میں گذشتہ نو سالوں سے برسراقتدار ہے، شدت پسندی کے خلاف جنگ میں ہزاروں شہری اور سکیورٹی فورسز کے اہلکار جانوں کی قربانی دے چکے ہیں۔ اس وقت آپ کی ترجیح یہی ہونی چاہیے کہ عوام کے درمیان رہ کر پوری شدت اور قوت سے شدت پسندی کے خلاف آواز بلند کی جائے اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
لیکن آپ نکل پڑے ہیں ’حقیقی آزادی‘ لانے؟
کون سی حقیقی آزادی؟ آپ کی ترجیحات تو عوام کو شدت پسندی سے حقیقی آزادی دلانا ہونا چاہیے۔ لیکن اس کے لیے کوشش کرنا تو دور کی بات، سوات کے عوام کا تو گلہ یہی ہے، وزیراعلیٰ محمود خان سمیت ان کے منتخب اراکین اسمبلی سوات آنے سے کترا رہے ہیں۔
وہاں کے عوام روز مظاہرے کر کے امن کی بھیک مانگ رہے ہیں لیکن وزیراعلیٰ صاحب اپنے گاؤں اور شہر آ کر ان لوگوں کو دلاسہ تک نہیں دے سکتے جنہوں نے ان کی جماعت کو کاندھوں پر چڑھا کر دو مرتبہ صوبے کا اقتدار سونپا۔
سوات میں گذشتہ روز سکول وین پر ایک حملے میں ڈرائیور ہلاک ہو گیا، خدانخواستہ وہاں حالات کہیں دوبارہ تو ایسے نہیں ہونے جا رہے جب ملالہ یوسفزئی پر قاتلانہ حملہ کیا گیا؟
ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ پی ٹی آئی حکومت صوبے کی گورننس اور امن و امان پر توجہ دے۔ جمہوری احتجاج ہر جماعت کا آئینی حق ہے لیکن صوبے کے عوام کا بھی یہ حق ہے کہ وہ حکومت سے یہ سوال کریں کہ ہم سے دوبارہ کیوں، کیسے اور کس لیے امن چھینا جا رہا ہے؟
گذشتہ ہفتے صوبے کی گورننس پر کچھ ایسے ہی سوالات اٹھائے لیکن جواب میں ٹوئٹر پر کوآرڈینیٹڈ ٹرالنگ اور بے ہودہ الزامات سے نوازا گیا۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ صوبے کے وزیر خزانہ تیمور جھگڑا جیسے مہذب سمجھے جانے والے سیاسی رہنما بھی اس دوڑ میں پیچھے نہ رہے۔ صحافی کا کام سوال اٹھانا اور سچ کے ساتھ کھڑے ہونا ہی ہے، چاہے اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔
امریکی سازش سے لے کر گورننس کے معاملات تک، ہمیشہ انہی سطور کے ذریعے پی ٹی آئی کی جس غلطی کی بھی بروقت نشاندہی کی کیا وہ درست ثابت نہیں ہوئی؟
کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ اپنی صحافت کو تعمیری تنقید اور حکومتوں کی غلطیوں کی درست نشاندہی کرنے پر ہی مرکوز کیے رکھا؟
زمینی حقائق اور حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اب بھی یہ سمجھتا ہوں کہ تحریک انصاف کا لانگ مارچ پارٹی کی سیاست کے لیے نقصان ثابت ہو گا۔
اس وقت عوام مشکل میں ہیں۔ پنجاب میں دو تین پاور سینٹر بن چکے ہیں، گورننس کے معاملات کا کوئی پرسان حال نہیں، پختونخوا کی تفصیل سے بات کر چکا۔
لہذا بہتر یہی ہے کہ تحریک انصاف واپس قومی اسمبلی میں آ کر فلور آف دا ہاؤس پر اپنی جدوجہد کرے، خستہ حال معیشت میں 75 رکنی کابینہ پر آواز اٹھائے، مہنگائی پر شور مچائے لیکن اسلام آباد پر چڑھائی کرنے اور نام نہاد ’حقیقی آزادی‘ کا حلف لینے کی بجائے یہ سوچے کہ پنجاب اور پختونخوا کے وزرائے اعلیٰ اور کابینہ نے عوام سے بھی وفاداری کا حلف اٹھا رکھا ہے۔
کیا وہ اس حلف کی خلاف ورزی کے مرتکب نہیں ہو رہے؟
جو وزیراعلیٰ اپنے حلقے کے عوام کو تحفظ تو دور کی بات، ان کے خدشات پر دلاسہ تک نہیں دے پا رہے کیا انہیں پاکستان میں انقلاب لانے کے نعروں کا حق حاصل ہے؟
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔