کوشش یہی رہی کہ پاکستان میں آنے والے تباہ کن سیلاب پر ہی فوکس رہے اس دوران بار بار التجا بھی کی اور عملی طور پر بھی یہی دہرانے کی کوشش کی کہ پہلی ہیڈ لائن دوسری ہیڈ لائن بہت کہ تیسری ہیڈلائن بھی سیلاب متاثرین ہی رہیں۔
لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ وطن عزیز میں ہر لمحے ایسی خبر ملنے کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے جسے کسی کو کوئی توقع نہ ہی ہو۔
آج بھی کالم تحریر کرتے ہوئے ارادہ یہی تھا کہ سیلاب متاثرین پر زیادہ فوکس رہے لیکن وزیراعظم ہاؤس کی آنے والی مبینہ آڈیو لیکس نے نہ صرف میڈیا بلکہ اسلام آباد کے ریڈ زون میں بھی کھلبلی مچا دی ہے۔
یہ بہت بڑا سکیورٹی بریچ ہے جس پر حکومت وقت کو اس سے زیادہ صفائی دینی ہو گی جو اب تک پیش کی گئی ہے۔ فون ٹیپنگ یا ریکارڈنگ اور اس قسم کی لیکس پاکستان میں ہونا کوئی نئی بات نہیں لیکن ایک وزیراعظم کی اپنی پارٹی کی نائب صدر اور بھتیجی کی گفتگو کا سامنے آنا خود حکومت، ہماری سکیورٹی ایجنسیوں اور ن لیگ کی لیڈرشپ کے لیے بہت سے سنجیدہ سوالات چھوڑ گیا جس کے جواب لازمی دینا ہوں گے۔
ابھی تک سامنے آنے والی لیکس میں مریم نواز کو ایسے پیش کیا جا رہا کہ انہوں نے اپنے داماد کے لیے ایک غیر قانونی کام کروانے کے لیے وزیرعظم ہاؤس پر دباؤ ڈالا۔ یعنی آڈیو لیکس کا بظاہر سب سے بڑا نقصان ابھی تک مریم نواز کو ہی پہنچا ہے۔
وزیر داخلہ رانا ثناللہ ہوں یا وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب انہوں نے آڈیو لیکس والے معاملے پر اگر صفائی پیش کی بھی تو وزیراعظم شہباز شریف کی، کہ یہ ثابت ہوا کہ ہماری حکومت میں غیر قانونی کام نہیں ہوا۔
تحریک انصاف نے حکومت جانے کے بعد سے سیاست کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور خان صاحب آڈیو لیکس والے معاملے پر مریم نواز کو مبینہ طور پر داماد کے لیے انڈیا سے مشینری منگوانے کی کوشش پر شدید تنقید کا نشانہ تو بنا رہے ہیں۔
لیکن انہیں یہ بات ضرور ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ شہباز شریف کی چھ ماہ کی حکومت کی آڈیو لیکس اگر آ سکتی ہیں تو پی ٹی آئی حکومت تو ساڑھے تین سال پر محیط تھی۔
اس وقت سیلاب کی تباہ کاریوں اور ملک کی بدحال معیشت کا تقاضہ یہ ہے حکومت اور اپوزیشن مل کر سیاسی ڈیڈ لاک کو ہر صورت ختم کریں۔
اگر عمران خان نے قومی اسمبلی میں واپسی کا اشارہ دے کر اسے نام نہاد امریکی سازش کے مراسلے کی تحقیقات سے مشروط کر دیا ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔
لیکن عمران خان صاحب کو اب یہ سوچنا پڑے گا کہ ریاست کے مفادات پر سیاست کرتے کرتے صبر کے کئی پیمانے لبریز کر چکے ہیں۔
اس وقت صرف وہی سیاسی جماعت ملک اور ریاست کا سوچ رہی ہے جو سیلاب متاثرین اور ان کی بحالی کا سوچ رہی ہے۔
تحریک انصاف کے ایسے بیانات کہ پاکستان کی ’کرپٹ حکومت‘ کو سیلاب کے متاثرین کے لیے امداد نہ دیں یا پھر فرانسیسی صدر سے وزیراعظم شہباز شریف کی ملاقات کو کسی طرح توہین مذہب سے جوڑنا نہ صرف سیلاب متاثرین بلکہ پاکستان کے ساتھ بحیثیت ملک زیادتی ہے۔
خصوصاً ایک ایسے وقت میں جب فرانس سیلاب متاثرین کے لیے ڈونر ممالک کی کانفرنس کے انعقاد کی سربراہی کر رہا ہے لیکن ہم یہاں سے اس کا کیا صلہ دے رہے ہیں؟
یہ سیاست نہیں بلکہ ریاست کے ساتھ زیادتی ہے جس کی اجازت کسی سیاسی جماعت کو نہیں ہونی چاہیے۔
پی ٹی آئی میں ایسی آرا ضرور موجود ہیں جو ایسی پالیسی اور بیانات کے آگے بند باندھنے کی بھرپور کوشش تو کرتے ہیں اور شاید یہی دھڑا اب تک خان صاحب کو بچانے میں بھی کامیاب رہا ہے لیکن اس دھڑے کو اب آگے آ کر سیاست کی بجائے ریاست کا سوچنا پڑے گا۔
آپ کی مرضی آپ ایک نہیں دو درجن لانگ مارچ کر لیں لیکن بس اتنا ذہن نشین کر لیں ایک تہائی ملک اس وقت ڈوبا ہوا ہے لوگ بھوک سے مر رہے ہیں، دنیا ہمارے لیے رو رہی ہے ہم خود کیا کر رہے ہیں یہ انتہائی اہم سوال ہے جو اس وقت ہم سب کو خود سے کرنا چاہیے۔