خود احتسابی کے اصول پر عمل کرتے ہوئے گذشتہ تحریر میں میڈیا سے گلہ کیا تھا کہ آدھا ملک سیلاب میں ڈوب چکا ہے لیکن مجھ سمیت ہمارے زیادہ تر صحافی اس میں پھنسے رہے کہ شہباز گل نے کیا کھایا اور کیا پیا۔
خدا خدا کر کے سیلاب متاثرین میڈیا کے ایجنڈے میں کچھ دنوں کے لیے سرفہرست رہا لیکن وہ بھی ایسے وقت میں جب پانی واقعی سر سے گزر چکا تھا۔
جب بلوچستان میں پانی میں تیرتی نعشوں کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی تھیں تب جنوبی پنجاب، سندھ اور پختونخوا میں سیلاب سے تباہی نہیں مچی تھی لیکن چند ہی چینلز پر ایسی ویڈیوز خبر بنا پائیں۔
یہاں قصور صرف میڈیا کا نہیں۔عین اسی وقت جب سوات ڈوب رہا تھا پختونخوا کی برسراقتدار جماعت ہری پور میں جلسہ کر رہی تھی اور جلسوں کا تھمنا تو دور کی بات، یہ سلسلہ اب بھی پوری آب و تاب سے جاری ہے۔
جس قدرتی آفت کا شکار پاکستان ہوا اگر ایسا کسی اور ملک میں ہوتا تو کم از کم چند ماہ سیاست اور صحافت سیلاب متاثرین کے گرد ہی گھومتی رہتی لیکن ہمارا اس پورے عرصے میں جو کردار رہا اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔
سیلاب متاثرین جس کرب سے گزرے یا گزر رہے ہیں اس پر تو کافی کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے لیکن میں ابھی بھی سمجھتا ہوں کہ وہ ناکافی ہے۔
گذشتہ ہفتے اپنے دو پروگرام سیلاب سے متاثرہ نوشہرہ اور چارسدہ سے کیے اور آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ اس کے بعد چند روز تک کن مشکلات سے صرف چند گھنٹے ہی سو پایا۔
نوشہرہ کلاں کی اس بزرگ خاتون کا چہرہ بار بار سامنے آتا رہا جو پکے ہوئے چاولوں کا ایک چھوٹا سا تھیلا لینے کے لیے ایک گھنٹے سیلابی پانی میں چل کر آئی تھیں۔
میں نے مائیک ہاتھ میں تھامے ان سے کئی سوالات کیے لیکن وہ ہر سوال کے جواب میں آبدیدہ ہو جاتیں۔ وہ اتنا بتا پائیں کہ ان کے گھر میں تین فٹ پانی موجود ہے۔
ان کی مدد کے لیے کوئی حکومتی اہلکار نہیں آیا اور وہ صرف اللہ کے آسرے پر اپنی زندگی کا مشکل ترین وقت گزار رہی ہیں۔
سیلاب متاثرین میں کم و بیش یہی کہانی ہر دوسرے شخص کی ہے۔ نوشہرہ اور چارسدہ کے درمیان سفر کرتے ہوئے موٹروے سے گزرا تو یہاں بھی کئی کلو میٹر سڑک کے دونوں جانب سیلاب متاثرین کے ٹینٹ نظر آئے جن میں زیادہ تعداد ایسے لوگوں کی تھی جن کے گھروں میں دریائے کابل کا پانی داخل ہو چکا تھا۔
تپتی دھوپ میں ان سے بات کرنے گاڑی سے اترا تو پانچ منٹ میں پسینے سے شرابور ہو چکا تھا اس وقت یہ احساس ہوا کہ یہ لوگ کن حالات گزارہ کر رہے ہیں۔
سب کچھ دریائے کابل کی نظر ہو چکا، نہ کھانے پینے کو کچھ ہے نہ پہننے کے لیے ایک سے زیادہ کپڑے بلکہ ان میں سے کچھ تو بغیر خیموں کے کھلے آسمان تلے رہ رہے تھے اور کچھ نے دو چارپائیاں کھڑی کر کے اس پر چادر باندھ کر عارضی خیمہ بنا لیا تھا۔
مزید پڑھیے
س میں کوئی شک نہیں کہ حکومت نے متاثرین کی ہر ممکن مدد کی کوشش کی لیکن سیلاب نے جتنے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائی اس سے نمٹنا صرف حکومت کے بس کی بات نہیں۔
الخدمت جیسی تنظیمیں، پاکستان فوج اور عام شہری اپنی مدد آپ کے تحت جتنا کر سکتے ہیں وہ کر رہے ہیں لیکن وہ کافی نہیں۔
اس وقت پاکستان کو عالمی مدد کی اشد ضرورت ہے خصوصاً سندھ میں جہاں صوبائی حکومت کو متاثرین کے لیے خیمہ بستی بنانے کے لیے نہ خشک زمین مل پا رہی ہے اور نہ خیمے۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے کھل کر اقرار کیا کہ جتنے بڑے پیمانے پر سیلاب نے تباہی مچائی اس میں ہم یہ دعویٰ نہیں کریں گے کہ صورت حال ہمارے کنٹرول میں ہے یا ہم ہر جگہ پہنچ چکے ہیں۔
اب ان حالات میں کوئی بھی سیاسی جماعت اگر جلسے جلوس کی سیاست کرے گی تو ان پر تنقید بالکل جائز ہو گی۔
عمران خان صاحب کو چاہیے کہ وہ دو صوبے جہاں ان کی حکومت ہے، خود جا کر فلڈ ریلیف مشن کو سنھبالیں کیونکہ گذشتہ چند ہفتوں میں اگر تحریک انصاف کی مقبولیت کو کسی چیز نے نقصان پہنچایا ہے تو وہ پنجاب اور پختونخوا میں سیلاب متاثرین کی داد رسی نہ کرنا ہے۔
ایسا بھی نہیں کہ ان دو صوبوں کی حکومتوں نے متاثرین کے لیے کچھ نہیں کیا لیکن اگر جنوبی پنجاب ڈوب چکا ہو اور گجرات میں خان صاحب مخالفین کو للکار رہے ہوں تو ظاہر ہے میسج یہی جائے گا کہ تحریک انصاف کو ہر قیمت پر اقتدار کے حصول علاوہ کسی اور چیز کی پرواہ نہیں۔