190

سیلاب میں تیرتی لاشوں پر کب تک خاموش رہا جائے گا؟

‎پاکستان کی سیاست میں گذشتہ چھ ماہ سے ایک بھونچال سا برپا ہے۔ حالات میں جو بھی ٹھہراؤ آتا ہے وہ عارضی ثابت ہورہا ہے۔

‎ایک جانب ایک درجن اتحادی جماعتوں پر مشتمل حکومت ہے جسے ایک مشکل سیاسی اور معاشی بحران سے نمٹنا ہے تو دوسری جانب مدمقابل عمران خان ہیں ‎جو یہ اٹل فیصلہ کرچکے ہیں کہ ان کے بیانیے اور سیاست میں میڈیا یا کوئی ادارہ ان کے ساتھ ہے تو ٹھیک ورنہ وہ کسی کو چین سے بیٹھنے نہیں دیں گے۔

‎ممنوعہ فنڈنگ کیس کے فیصلے کے بعد سے تحریک انصاف اور عمران خان پر یکے بعد دیگر مقدمات بنتے جارہے ہیں۔ شہباز گل کے متنازع انٹرویو نے چند روز تو پی ٹی آئی کو بیک فٹ پر دھکیل دیا تھا لیکن اس کے بعد دوجلسوں میں عمران خان نے ایک بار پھر اپنی تقریروں سے کارکنان کو یہ واضح پیغام دیا کہ حاضر سروس افسران ہوں یا ججز، ہمارے خلاف جو فیصلہ آئے گا ان سب کو نتائج بھگتنا پڑیں گے۔

‎حکومت سے رخصت ہونے کے بعد عمران خان کی ایسی تقاریر روزمرہ کا معمول بن چکی ہیں اور یہ تاثر انتہائی تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے کہ عمران خان جو کہیں یا کریں، کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

 

13 اگست 2022 کی اس تصویر میں سابق وزیراعظم عمران خان لاہور میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے (تصویر: اے ایف پی)

 

‎عمران خان کی گرفتاری کی خبروں کے بعد ہزاروں کارکنان یہ نعرے لگاتے ہوئے بنی گالہ پہنچے کہ عمران خان ہماری ریڈ لائن ہے۔ سابق وفاقی وزیر امور کشمیر علی امین گنڈاپور تو یہاں تک کہہ گئے کہ اگر عمران خان کو گرفتار کیا گیا تو کارکنان اسلام آباد پر قبضہ کرلیں گے۔

‎ریاستی ادارے ہوں، میڈیا یا پھر عدلیہ سب کو کھل کر دھمکیاں مل رہی ہیں۔ ملک میں عدم استحکام بڑھتا جارہا ہے۔ خدانخواستہ ایک حادثہ ایسی آگ لگا سکتا ہے جس کے نقصان سے کوئی بچ نہیں پائے گا۔

‎بظاہر اب یہ لگ رہا ہے کہ ریاستی اداروں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور عمران خان کے ٹکراؤ کے بیانیے کے آگے اب مکمل بند باندھنے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔

 

سابق وزیراعظم کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں خاتون جج کے بارے میں بیانات پر ان کے خلاف توہین عدالت کا سنجیدہ کیس بن چکا ہے۔ اسی طرح چیف الیکشن کمشنر کے بارے میں بار بار گفتگو بھی عمران خان کے گلے پڑ چکی ہے۔

‎تحریک انصاف اب ایک ایسے بھنور میں داخل ہوچکی ہے جہاں ایسی سنگین غلطیوں کی اب گنجائش باقی نہیں رہی۔

اگر پی ٹی آئی کا ایک دھڑا اداروں کے ساتھ مزید ٹکراؤ کی سیاست کا سلسلہ جاری رکھتا ہے تو یہ اس کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔

‎اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان اس وقت مقبولیت کی انتہا پر ہیں۔ لیکن ان کی طرز سیاست اور بیانیہ اگر اسی طرح ملک میں عدم استحکام بڑھاتا رہا تو سنجیدہ ووٹرز اور سپورٹرز ان سے دور ہوتے جائیں گے، جو اس امید سے ان کا ساتھ دے رہے ہیں کہ عمران خان ایک ایسا نیا پاکستان بنائیں گے جہاں ملکی سالمیت اور ترقی اولین ترجیح ہوگی نہ کہ اقتدار۔

‎اقتدار کے خاتمے کے بعد ان کی سیاست ابھی تک یہی تاثر دے پائی ہے کہ مجھے اقتدار میں واپس لاؤ ورنہ یہ ملک نہ آگے چل پائے گا اور نہ ہم اسے آگے چلنے دیں گے۔

‎اس تمام صورت حال کے دوران ملک کے بیشتر علاقوں میں شدید بارشوں نے سیلاب برپا کررکھا ہے۔ سندھ، بلوچستان، جنوبی پنجاب، گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا کے کئی اضلاع سیلاب کے نرغے میں آ چکے ہیں۔

لاشوں کی دلخراش اور دل دہلا دینے والی تصاویر اور ویڈیوز سامنے آ رہی ہیں۔ لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوچکی ہیں اور ہزاروں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں۔

 

وزیراعظم نے دو دورے کیے لیکن متاثرین کی دادرسی نہیں ہو سکی۔

‎لیکن المیہ یہ ہے کہ ملکی میڈیا اس تباہی کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہا۔ اس وقت مجھ سمیت زیادہ تر صحافی حضرات کے لیے اہم سوال یہ بنا ہوا ہے کہ شہباز گل نے جیل میں کیا کھایا کیا پیا اور عمران خان اگلی دھمکی کس کو دینے جا رہے ہیں۔ سیلاب زدگان کی بدحالی دکھانے سے ریٹنگز نہیں آئیں گی اور نہ ہی چٹ پٹی ہیڈ لائنز نکل پائیں گی لیکن سیلابی ریلوں میں تیرتی ہوئیں لاشوں پر کب تک خاموش رہا جائے گا۔

سنا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے سنگین صورت حال کے باعث سوموار کو کئی گھنٹے طویل اجلاس منعقد کیے جن میں سندھ اور بلوچستان کے وزرائے اعلی نے بھی شرکت کی، لیکن اس وقت معاملہ اجلاسوں سے کنٹرول نہیں ہو گا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کر کے سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے خود سیلابی پانیوں میں اترنا پڑے گا۔

عمران خان صاحب سے بھی گزارش یہی ہے کہ کم از کم تین چار دن سیاسی سرگرمیاں معطل کر کے سیلاب متاثرین کا دورہ کریں تو انہیں اندازہ ہو کہ اس وقت سیاست سے زیادہ ضروری سیلاب متاثرین کی بحالی ہے۔

بشکریہ انڈپینڈنٹ نیوز