بالآخر شہباز حکومت نے وہ مشکل فیصلے کر لیے ہیں جو معیشت کی بحال کے لیے ناگزیر سمجھے جا رہے تھے، لیکن اب اتحادی حکومت کا کڑا امتحان پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 60 روپے اضافے کے بعد آنے والی مہنگائی کے طوفان کو روکنا ہے۔
اس وقت حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہی معیشت کو سنبھالنا ہے۔گو کہ اتحادی حکومت نے سبسڈی واپس لینے کے ناگزیر فیصلے میں چند ہفتے کی تاخیر کی، جس سے غیر یقینی بڑھی، روپے کی قدر تیزی سے گری اور یہ تاثر ابھرا کہ ن لیگ حکومت کرنے میں سنجیدہ ہی نہیں اور تذبذب کا شکار ہے کہ کب تک حکومت کی جائے اور مشکل فیصلوں کی سیاسی قیمت کیوں ادا کی جائے۔
لیکن عمران خان کے اِل ٹائمڈ یا بے وقت کے لانگ مارچ نے اتحادی حکومت حکومت کے لیے بہت سے مشکل فیصلے آسان بنا دیئے ہیں۔ 20 مئی تک حکومت خود اسمبلی تحلیل کرکے انتخابات کے فیصلے کے لیے ذہن سازی کرچکی تھی لیکن لانگ مارچ کا اعلان ہوتے ہی یہ فیصلہ کیا گیا کہ اب اگر عمران خان کے دباؤ میں آکر انتخابات کا اعلان کیا گیا تو یہ حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں کے لیے بہت بڑا سیاسی سیٹ بیک ہوگا۔
ویسے تو لانگ مارچ کو ناکام بنانے کا ٹاسک وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کو دیا گیا تھا لیکن تحریک انصاف کی نامکمل تیاری اور ناقص منصوبہ بندی کے باعث حکومت کو کچھ زیادہ نہیں کرنا پڑا۔
عمران خان کا پنجاب کی بجائے پختونخوا سے لانگ مارچ کو لیڈ کرنے کا فیصلہ اس حکمت عملی کے لحاظ سے تو وقتی طور پر ٹھیک تھا کہ گرفتاری سے بچا جائے اور پختونخوا حکومت کے وسائل استعمال کرتے ہوئے بھرپور عوامی طاقت کے ساتھ اسلام آباد میں داخل ہوا جائے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ خیبر پختونخوا میں عمران خان کی حکومت ہے جبکہ وہ اس وقت بھی صوبے کے مقبول ترین رہنما ہیں، لیکن اس حکمت عملی کی وجہ سے تحریک انصاف کی حکومت پنجاب پر توجہ مرکوز نہ کر پائی اور نتیجہ یہ نکلا کہ پنجاب کے عوام کو نہ اپنے شہروں میں نکالا جا سکا اور نہ ہی اسلام آباد کی جانب لایا جاسکا۔
یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ حکومت نے جگہ جگہ کنٹینرز کھڑے کرکے راستے بلاک کیے، آنسو گیس اور شیلنگ کا استعمال کیا، گرفتاریاں ہوئیں لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نہ صرف رکاوٹیں ہٹا دی گئیں بلکہ پختونخوا سے عمران خان کی قیادت میں قافلہ اسلام آباد کے ڈی چوک میں بھی پہنچا۔
عمران خان کا پنجاب کی بجائے پختونخوا سے لانگ مارچ کو لیڈ کرنے کا فیصلہ اس حکمت عملی کے لحاظ سے تو وقتی طور پر ٹھیک تھا کہ گرفتاری سے بچا جائے اور پختونخوا حکومت کے وسائل استعمال کرتے ہوئے بھرپور عوامی طاقت کے ساتھ اسلام آباد میں داخل ہوا جائے۔
تو پھر لاہور، ملتان، پنڈی اور جہلم کے قافلےکہاں کھو گئے تھے؟ اگر مری سے صداقت عباسی سینکڑوں گاڑیوں کے ہمراہ آ پہنچے تو اسد عمر کے حلقے کے لوگ اپنے ہی حلقے میں کیوں نہ نکالے جا سکے۔
یاسمین راشد، حماد اظہر اور عمر ایوب جیسے لوگ مار کھا کر بھی کارکنان کے ساتھ کھڑے رہے تو فواد چوہدری، اسد عمر اور شاہ محمود قریشی کیوں کنٹینر پر چڑھ کر سیلفیاں بنانے کی بجائے اپنے اپنے شہروں اور حلقو ں سے لوگوں کو لیڈ نہ کر پائے؟
شہباز گِل پشاور میں کھڑے ہو کر فرما رہے تھے کہ پشتون اپنا بدلہ سو سال بھی نہیں بھولتے تو یہی شہباز گِل اپنے ساتھ اپنے شہر فیصل آباد سے کیوں نہ دو درجن بھر لوگوں کو نکال سکے؟
اقتدار سے پی ٹی آئی محروم ہوئی ہے، پختون نہیں، نہ ہی یہ پختونخوا کی جنگ ہے۔ پختونوں نے گذشتہ دو انتخابات میں پی ٹی آئی پر اعتماد کا اظہار کیا، لانگ مارچ میں بھی ہزاروں کی تعداد میں لوگ نکلے اور آئندہ انتخابات میں بھی شاید آپ کو جتوا دیں، لیکن کیا آپ یہ لڑائی پنجاب میں لڑے بغیر جیت سکتے ہیں؟ بالکل نہیں!
آپ کی پنجاب کی قیادت ناکام رہی اور نتیجتاً لانگ مارچ ناکام ہوا، لیکن یہ صرف لانگ مارچ کی ناکامی کی بات نہیں۔ اقتدار سے نکلنے کے بعد عمران خان نے جو سیاسی مومینٹم بنایا تھا اسے بہت بڑا دھچکا لگا ہے اور اسے کسی طور ایک بڑے سیاسی سیٹ بیک سے کم نہیں سمجھنا چاہیے۔
وہ حکومت جو اقتدار میں آتے ہی اقتدار سے جانے کے دن گن رہی تھی، لانگ مارچ کی ناکامی کے بعد اب فرنٹ فٹ پر آچکی ہے۔ عمران خان نے چھ دن بعد اگلے لانگ مارچ کا اعلان کرنا تھا لیکن اس وقت وہ اندرونی اختلافات اور کارکنان کے درمیان پھنسے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
اگرچہ پنجاب کی قیادت تبدیل کر دی گئی ہے اور انہوں نے خیبر پختونخوا چھوڑ کر واپس اسلام آباد میں پڑاؤ ڈالنے کا درست فیصلہ بھی کرلیا ہے، لیکن ابھی انہیں انتظار کرنا پڑے گا۔ انہیں اپنی رِدھم میں واپس آنے کے لیے دوبارہ سے جلسوں کا اعلان کرکے عوام میں جانا پڑے گا، جس میں چھ سے آٹھ ہفتے لگ سکتے ہیں اور اس کے بعد بھی اس بات کے چانسز نہ ہونے کے برابر ہیں کہ وہ حکومت کو انتخابات پر مجبور کروا سکیں۔
پاکستانی سیاست میں مقابلے کے قائدے قوانین کب کے ختم ہو چکے ہیں، اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ عمران خان سے ٹرین چھوٹ چکی ہے۔ البتہ یہ واضح ہے کہ عمران خان سپیڈ ٹرین پر چڑھنے کی بجائے سلو یا سست رفتار ٹرین پر سوار ہوچکے ہیں۔
جبکہ شہباز شریف، شہباز سپیڈ سے نہ صرف اپنی ٹرین پر اتحادیوں سمیت سوار ہو چکے ہیں بلکہ ٹرین کو حادثے سے بچانے کی تمام احتیاطی تدابیر بھی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب سست رفتار ٹرین پر سوار خان صاحب سپیڈ تیز کرنے کے چکر میں احتیاطی تدابیر (ان کے چند حالیہ بیانات سے واضح ہے) کا دامن چھوڑ چکے ہیں اور ریلوے کے ٹریفک وارڈن کو انہیں بار بار جرمانہ کرنے کے لیے ٹرین کو رکوانا بھی پڑ رہا ہے۔
بہرحال اقتدار کی ان دو ٹرینوں پر سوار حکومت اور اپوزیشن دونوں کو یہ ذہن نشین کرنا ہوگا کہ ریلوے ٹریک یعنی پاکستانی معیشت خطرناک حد تک بوسیدہ ہوچکی ہے۔ اگر اسے ازسرنو بحال نہ کیا گیا تو دونوں ٹرینوں میں سوار لوگ کچھ عرصے میں کہیں پہنچنے کے قابل نہیں رہیں گے۔
اس وقت عمران خان کے لیے بڑا چیلنج اپنا مومینٹم دوبارہ بنا کر حکومت کو گھر بھجوانا ہے، لیکن شہباز شریف کے لیے ڈیلیور کرنے والے سیاست دان کی اپنی ساکھ کو برقرار رکھنا ہے۔ اگر شہباز شریف یہ سوچ رہے کہ ان کا اصل امتحان معیشت کی بحالی اور عوام کو مہنگائی سے ریلیف دینا نہیں بلکہ عمران خان سے نمٹنا ہے تو وہ سنگین غلطی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔