سپریم کوٹ نے سٹیٹ بینک کو حکم دیا ہے کہ وہ حکومت کے کھاتے سے اکیس ارب نکال کر الیکشن کمیشن کو دے۔ سٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ وہ پیر 17 اپریل تک پیسے دے دے گا۔ ویسے بھی اس کے پاس حکومت کا بہت مال پڑا ہے۔ مختلف اکاؤنٹس میں ایک کھرب چالیس ارب سے زیادہ کے فنڈ موجود ہیں۔ یعنی 140 ارب روپے۔ اس میں سے اکیس ارب نکل جائیں گے تو بھلا کیا فرق پڑے گا۔
لیکن حکومت بدنیت ہے، کہیں کوئی گڑبڑ نہ ہو جائے۔ ہو سکتا ہے کہ عدلیہ سے متعلق کوئی حکومتی اکاؤنٹ ہو اور اسے خالی کر کے پیسہ الیکشن کمیشن کو دے دیا جائے۔ ویسے بھی یہ حکم جاری ہونے کے فوراً بعد قومی اسمبلی میں قرارداد منظور کی گئی کہ سپریم کورٹ کے ڈیم فنڈ میں موجود تقریباً سترہ ارب نکال کر قومی خزانے میں جمع کروائے جائیں۔
یعنی سپریم کورٹ کی نظر حکومتی خزانے پر ہے اور حکومت کی نظر سپریم کورٹ کے خزانے پر۔ پیسے کے معاملے میں ٹکراؤ ہو سکتا ہے۔ سپریم کورٹ صوبہ پنجاب میں ہر صورت انتخابات کروانا چاہتا ہے۔ حکومت ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے۔ کہتی ہے کہ اس کے پاس کوئی پیسہ نہیں، ملک دیوالیہ ہونے والا ہے، پیسہ دانت سے پکڑ کر حکومت دیوالیہ پن بچا رہی ہے۔
ہمیں خدشہ ہے کہ حکومت عیاری دکھا کر یہ سترہ ارب روپے واقعی پار کر لے گی جو چیف جسٹس ثاقب نثار نے بصد مشکل جمع کیے تھے۔ اگر اسمبلی قانون بنا لے یا انتظامی حکم کے ذریعے سٹیٹ بینک کو کہا جائے کہ ڈیم فنڈ کے اکاؤنٹ میں موجود پیسہ حکومتی خزانے میں جمع کروا دیا جائے، تو سٹیٹ بینک بچارہ کیا کرے گا؟ ظاہر ہے کہ قانون کی پاسداری کرتے ہوئے پیسہ جمع کروا دے گا۔
سیانے کہتے ہیں کہ اگر پیسہ ہاتھ سے جا ہی رہا ہو، تو نقصان سے بچنے کے لیے اسے مناسب طریقے سے ٹھکانے لگا دینا چاہے۔ ایک مشہور تاریخی واقعہ ہے کہ بھائی عبدالقدوس نے بھائی عبدالغفور سے چالیس ہزار ادھار لیے لیکن لوٹانے میں ٹال مٹول کر رہے تھے۔ ایک دن دونوں کہیں جا رہے تھے کہ ڈاکو آن پڑے اور جیبیں خالی کرنے کا حکم دیا۔ بھائی عبدالقدوس نے اپنی جیب میں موجود پچاس ہزار نکالے، فوراً بھائی عبدالغفور کو تھمائے اور کہا ”یہ رہا تمہارا چالیس ہزار کا قرض اور ساتھ دس ہزار روپے میں بطور امانت تمہارے حوالے کر رہا ہوں“ ۔
اس تاریخی واقعے کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم تو سپریم کورٹ کو صلاح دیں گے کہ یہ سترہ ارب فوراً الیکشن کمیشن کو دے دے کہ اس سے الیکشن کروا دو۔ باقی چار ارب کہیں ادھر ادھر سے پورے ہو جائیں گے۔ اس کے لیے بھی ہمارے ذہن میں چند منصوبے موجود ہیں۔
یہ بات تو تمام سروے بتا رہے ہیں کہ الیکشن ہوتے ہی کپتان کی تحریک انصاف بھاری مارجن سے جیت جائے گی۔ اسی نے الیکشن کروانے کے لیے انصافی و نا انصافی مہم بھی چلائی ہوئی ہے۔ اس سے بھی تعاون کرنے کا کہا جا سکتا ہے۔
فواد چوہدری کے مطابق اکتیس اگست 2022 کی سیلابی ٹیلی تھون کے تین گھنٹوں کے اندر اندر پانچ ارب روپے اکٹھے ہو گئے تھے۔ کپتان دس گھنٹے کی الیکشن ٹیلی تھون کر کے اکیس ارب اکٹھے کرے اور حکومت کے منہ پر مار دے۔
کپتان نے اپنا دس نکاتی معاشی ایجنڈا پیش کرتے ہوئے ایک اہم نکتہ یہ بتایا تھا کہ صرف امریکہ ہی میں 18 ہزار پاکستانی ڈاکٹروں کے پاس دو کھرب ڈالر پڑے ہیں۔ یہ پاکستانی روپوں میں کم و بیش 600 کھرب روپے بنتے ہیں۔ یعنی حکومت کا سٹیٹ بینک میں جو ڈیڑھ کھرب روپیہ پڑا ہے، اس سے بے حد و حساب زیادہ۔ اگر کپتان ان پاکستانی ڈاکٹروں کے 600 کھرب، یعنی ساٹھ ہزار ارب میں سے 21 ارب فوراً منگوا لے تو الیکشن کا خرچہ اسی سے پورا ہو جائے گا۔ یہ اکیس ارب تو بالکل ریزگاری ہے۔ ابھی تو برطانوی اوورسیز پاکستانی بھی باقی ہیں جو کپتان کے زیادہ اندھے حامی ہیں۔ وہ بھی کچھ ریزگاری دے دیں گے۔
جو شخص 95 کھرب کے بجٹ والے ملک کی کایا پلٹنے کا معاشی منصوبہ بنائے بیٹھا ہو اس کے سامنے 0.21 کھرب کے الیکشن فنڈ کی بھلا کیا حیثیت ہے؟
کپتان کا دس نکاتی معاشی ایجنڈا ابھی سے چالو کر دینا چاہیے۔ بلکہ کپتان اگر اسی ہلے میں 200 ارب ڈالر میں سے اگر 20 ارب ڈالر منگوا لے، تو پھر سب حافظ و قاضی ہاتھ جوڑ کر اسے حکومت دیں گے۔ محض چند گھنٹوں کی ایک ٹیلی تھان کا سوال ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ چیف جسٹس فوراً کپتان کو حکم دیں کہ وہ الیکشن کروانے کے لیے ٹیلی تھون کروائے تاکہ یہ ساری دانتا کل کل ختم ہو، کپتان انصاف کی مسند پر بیٹھے اور اس کے مخالف دوبارہ جیل میں جائیں تاکہ انصاف کا بول بالا ہو۔