ہم خدا کی برگزیدہ ترین قوم ہیں۔ ہمارے مرد دنیا کے دوسرے ذہین ترین اور تیسرے سمارٹ ترین افراد ہیں۔ ہم انصاف پسند ہیں اور ہمیشہ میرٹ پر ٹیم سلیکٹ کرتے ہیں۔ کرکٹ کا بہترین ٹیلنٹ پاکستان میں موجود ہے۔ ہماری ٹیم دنیا میں نمبر ون ہے۔ نہ صرف اس میں دنیا کے نمبر ون اور ٹو بیٹسمین شامل ہیں بلکہ روحانی طاقتیں اس کے ساتھ ہیں۔ نہ صرف تبلیغی جماعت کی دعائیں اس کی محافظ ہیں بلکہ تبلیغی جماعت کے اراکین بھی ٹیم میں شامل ہیں۔ جو سبز پوش بزرگ بم کیچ کر سکتے ہیں کیا وہ کرکٹ کی بال کیچ نہیں کر سکتے؟ پھر بھی کیچ ڈراپ ہو جاتے ہیں اور ہم ہار جاتے ہیں۔ سوچیں کیوں؟
بات یہ ہے کہ انگریز ہمارے مہمان تھے اور ہماری ہزاروں سال پرانی روایات میں مہمان نوازی کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ حاتم طائی نے تو مہمان نوازی کرتے ہوئے اپنا پسندیدہ گھوڑا اپنے مہمان کو کھلا دیا تھا۔ ہم کوئی حاتم سے کم ہیں؟
ویسے بھی انگریز پہلے ہی صدمے سے نڈھال تھے۔ ان کی محبوب ملکہ پچھلے دنوں فوت ہوئی ہے۔ ابھی تو اس کا چالیسواں بھی نہیں ہوا۔ ان کا دل رکھنے کو ہماری اعلیٰ ظرف ٹیم نے میچ اور سیریز ہارے ہیں ورنہ پچھلے میچوں میں وہ ثابت کر چکی ہے کہ وہ اتنی زیادہ باصلاحیت ہے کہ جس وقت چاہے بازی پلٹ سکتی ہے اور میچ کو شکست کے جبڑوں سے کھینچ کر فتح یاب ہو سکتی ہے۔ ہماری ایک چھوٹی سی ہار سے ان دکھیاروں کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی تو اور کیا چاہیے؟
آپ نے بچپن میں کہانی پڑھی ہو گی جس میں ایک کمزور سا شخص ایک جانے مانے پہلوان کو خوب برا بھلا کہتا ہے اور پہلوان چپ چاپ برداشت کرتا ہے۔ ایک شخص پوچھتا ہے کہ میاں یہ بندہ تو تمہارے ایک تھپڑ کی مار تھا پھر تم نے اس کی بدتمیزی کیوں برداشت کی؟ پہلوان نے عاجزی سے جواب دیا ”وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ کتنی طاقت والے سے لڑ رہا ہے مگر میں جانتا تھا“۔ انگریز بھی نہیں جانتے تھے کہ وہ کتنی طاقت والے سے لڑ رہے ہیں
آپ نے وہ قصہ بھی سن رکھا ہو گا کہ ایک رستم زماں کو ایک تیلی جیسے بندے نے مقابلے کا چیلنج دیا۔ لوگ اس کی بے وقوفی پر ہنسنے لگے۔ شرط کا ریٹ ایک کے مقابلے میں سو ہو گیا۔ جب پہلے تین سیکنڈ کے اندر ہی پہلوان نے دھوبی پٹڑا مار کر اس کو دھول چٹائی تو لوگوں کو یقین ہو گیا کہ بس اب یہ گیا۔ شرط کا بھاؤ ایک سے ہزار پر پہنچ گیا۔ لیکن پھر یکلخت پہلوان ہار گیا۔ کسی نے پوچھا کہ پہلوان جی یوں کیوں ہارے تو وہ یوں گویا ہوا
”جب میں نے اس کی کمر زمین سے لگائی تو وہ چپکے سے کہنے لگا ’پہلوان جی، میرے بچے گھر میں تین دن سے بھوکے ہیں۔ محض ان کا پیٹ بھرنے کو آپ جیسے طاقتور کے سامنے میں نے اپنا ناتواں جسم لا پھینکا ہے۔ مجھے پتہ ہے کہ میں جیت نہیں پاؤں گا، بہت مار کھاؤں گا۔ بس یہ درخواست ہے کہ میرے بچوں پر رحم کھائیں۔ میں نے کہیں سے ایک ہزار روپے ادھار پکڑا ہے اور ساری رقم اپنی جیت پر لگا دی ہے‘ ۔ اب میں اتنا بے غیرت اور سنگ دل نہیں کہ اس غریب کے بھوکے بچوں کے منہ سے نوالا چھین لیتا۔ میں کشتی ہار گیا لیکن انسانیت جیت گئی“
اگر دیکھا جائے تو برطانیہ کی معیشت آج جتنے برے حال میں ہے ویسی تو جنگ عظیم کے بعد بھی نہیں ہوئی تھی۔ ہمیں تعجب نہیں ہو گا اگر انگلستانی کپتان نے بھی بابر اعظم سے ایسی کوئی بات کہی ہو کہ اس نے ہارنے میں ہی اپنی اور انسانیت کی فتح دیکھی ہو۔
مندرجہ بالا وجوہات کے علاوہ تو ہوم گراؤنڈ پر یوں بری طرح ہارنے کی کوئی اور وجہ ہمارے ذہن میں نہیں آتی۔ آپ کے ذہن میں آتی ہو تو بتا دیں۔