964

حلیم سے دلیم بنا تو کریم سے کیا بنا؟

 

خدا کا شکر ہے کہ اب ہماری نسل کے عام لوگ بھی مذہب کی اتنی عقیدت سے تطہیر کر رہے ہیں جتنی ہم سے پچھلی نسل کے بڑے بڑے عالم بھی نہ کر سکے۔ اب اسی لفظ ”خدا“ کو دیکھ لیں۔ ہمارے بڑے خدا حافظ کہتے تھے۔ الحمدللہ اب اسے اسلامی کر کے اللہ حافظ کر دیا گیا ہے۔ بڑے بڑے علما قرآن کے اردو تراجم میں اللہ کی بجائے خدا لکھ دیا کرتے تھے۔ شکر ہے کہ پس از مرگ ان کی یہ گمراہی دور کر دی گئی۔ اب ان کے تراجم میں آج کے مجددین نے خدا کی جگہ اللہ لکھ چھوڑا ہے۔

ایسا ہی ایک معاملہ ایک مقبول کھاجے حلیم کا ہے۔ اب خدا رسیدہ، ہمارا مطلب ہے کہ اللہ رسیدہ لوگ بتاتے ہیں کہ حلیم تو اللہ کا صفاتی نام ہے، تو یہ نام کسی کھاجے کو کیسے دیا جا سکتا ہے؟ یہ تو بے ادبی ہے، گناہ ہے، شرک ہے۔ یہ اعتراض ہم کم علموں کو تو نہایت معقول دکھائی دیتا ہے۔ ہماری عادت ہے کہ کسی کی بات سنیں تو اس کی تصدیق ضرور کرتے ہیں، پھر ہی بات کو سچ تسلیم کرتے ہیں۔ ہم نے یہ بات پہلی مرتبہ سنی تو ترنت نورانی قاعدہ کھولا اور اللہ کے ننانوے صفاتی نام دیکھے۔ واقعی حلیم ان میں موجود تھا۔ مگر شاید نورانی قاعدے والے بھی پرانے زمانے کے علما تھے جن کا علم ظاہر ہے کہ اب ناقص ٹھہرا ہے۔ غالباً بلاوجہ ہی انہوں نے ان صفاتی ناموں کے سامنے ”ال“ لگا دیا ہے۔ وہاں حلیم کی بجائے الحلیم لکھا ہوا ہے۔ خیر جن صالحین نے حلیم کو صفاتی نام قرار دیا ہے، وہ انشا اللہ نورانی قاعدے کے اگلے ایڈیشن میں سے ضرور یہ ”ال“ نکال دیں گے۔ اللہ جانے عربی میں اس کا کیا مطلب ہے اور کیوں لگایا گیا تھا۔

سوچتے سوچتے خیال آیا کہ کیا حلیم کو دلیم کہنے والے کریم کو بھی دریم کہتے ہیں؟ یا عربوں ترکوں کی طرح دکان سے معجون مانگتے ہیں؟ لیکن پاکستان میں دکان سے معجون مانگا جائے تو نجانے دکاندار کوئی نیلی پیلی گولی یا تیل پھلیل خود دے گا یا نزدیکی حکیم صاحب کے مطب کا راستہ دکھائے گا۔ اگر اس نابکار نے نیلی پیلی گولی خود دینے کی بجائے ایسا کیا تو وہیں اس مردود کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے کہنا چاہیے کہ حکیم تو اللہ کا صفاتی نام ہے، تم نے کسی بندے کو حکیم کیوں کہا؟ اسے قطیم کہو۔

بہرحال معجون مانگنے والا اگر قطیم کے پاس بھیجا جائے تو اس کی بھی خیر ہے۔ شاید اس ضرورت مند کا کچھ بھلا ہو جائے۔ لیکن معجون سو طرح کے ہوتے ہیں۔ کولڈ معجون طلب کرنے کی والے کی تو بچت ہو جائے گی، شیونگ کے لیے معجون مانگنے پر کسی بد باطن نے نائی کے پاس بھیج دیا تو بڑا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ شرمیلے لوگ ایک عضوئے رئیس کو ہزار ناموں سے پکارتے ہیں، نائی یہ بھی تو سمجھ سکتا ہے کہ گاہک شرم کے مارے عربی میں اسے معجون کہہ رہا ہے۔ معجون کا مطلب غلط سمجھ کر اس نے غلط شے پر استرا چلا دیا تو کہیں امت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے ہوئے اسے بڑھانے کی صلاحیت جڑ سے نہ اکھاڑ پھینکے۔ اس بارے میں صالحین سوچ بچار کر لیں تو بہتر ہو گا۔

ہم عقائد کے معاملے میں ازحد محتاط رہتے ہیں۔ یہ جاننے کے بعد کہ کھانے کا نام غلط طور پر حلیم رکھا گیا تھا، ہم نے از روئے احتیاط اللہ کے باقی 98 صفاتی نام بھی دیکھے اور اپنے عقائد درست کیے۔ آپ بھی اگر حلیم کو دلیم کہہ کر اپنا ایمان بچاتے ہیں تو نہایت محتاط رہیں اور وہ سبق سیکھیں جو ہم نے سیکھا ہے۔

آئندہ ہم کسی بندے کو عزیز ہرگز نہیں سمجھیں گے۔ کسی کو مومن نہیں مانیں گے۔ کسی شخص کو مصور کہنے کی حوصلہ شکنی کریں گے۔ عدالت کو ایوان عدل لکھنے کے خلاف تحریک چلائیں گے۔ کسی شے کو لطیف کہنا سننا گوارا نہیں کریں گے۔ کسی بندے کو عظیم نہیں مانیں گے۔ کسی کو جلیل القدر کہا گیا تو ناراض ہو جائیں گے۔ انسانوں کو ولی کہنے والوں کے ایمان پر شک کریں گے۔ شادی بیاہ میں اگر کسی بندے کو دلہن کا وکیل بنایا گیا تو وہیں لڑ پڑیں گے کہ ٹھہرو، یہ نکاح نہیں ہو سکتا، شرک مت کرو۔ وکلا کو بھی کہیں گے کہ کوئی شخص تمہیں وکیل کہے تو ہمیں اس کے ایمان پر شک ہوتا ہے۔ مقتدرہ قومی زبان کا تو نام تک سننا روا نہیں رکھیں گے۔ کسی بندے یا چیز کو اول یا آخر قرار دیا گیا تو اسے اپنے ایمان پر حملہ سمجھیں گے۔ کسی شخص نے کسی امر کو موخر کرنے کی تجویز پیش کی تو اس پر لعنت ملامت کریں گے۔ اور کسی انسان یا امر کو مقدم رکھنے والے کو تو بخشیں گے ہی نہیں۔ اگر کسی بندے نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ کسی منقولہ و غیر منقولہ شے کا مالک ہے تو اس پر تبلیغ کر کے اس کا ایمان درست کریں گے۔ کسی نے جامع بیان دینا چاہا تو اسے موقعے پر ہی جھوٹا اور کاذب قرار دیں گے۔ کسی شخص کو شہید کہا گیا تو وہیں روٹھ جائیں گے۔

ویسے اگر آپ کے قرب و جوار میں کوئی عربی دان موجود ہو تو اس سے ضرور پوچھیں کہ خدا کے ان صفاتی ناموں سے پہلے ”ال“ کیوں لکھا جاتا ہے؟ ہمارے ارد گرد تو نہایت لبرل سیکولر قسم کے لوگ موجود ہیں جو عربی کی بجائے انگریزی سیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان سے پوچھنا تو کار لاحاصل ہے۔

 

بشکریہ ہم سب