58

خوجی: جب ہوٹل میں کھانا کھانا حرام تھا

رتن ناتھ سرشار کے کلاسیک ناول فسانہ آزاد سے ایک اور ورق پڑھتے ہیں۔ کہانی اس وقت کی جب دگلے والی پلٹن کے جی دار کمیدان خواجہ بدیع الزماں المعروف بہ میاں خوجی نے ہوٹل میں کھانا کھانے کو شراب پینے اور سور کھانے کے برابر قرار دیا تھا اور اس معاشرتی برائی کے خلاف علم جہاد بلند کر دیا تھا۔

ہاں ایک بات خوب احتیاط سے نوٹ کر لیں، اگر میاں خوجی کے فتوے دینے یا قرولی وغیرہ بھونکنے میں آپ کو عصر حاضر کے کسی شخص کی جھلک نظر آتی ہے، تو یہ آپ کا ظرف نظر ہے۔ آپ کو میاں خوجی میں جس کی مشابہت بھی نظر آئے، وہ آپ کا اپنا فیصلہ ہے اور خاکسار آپ کے حسن نظر سے متفق ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔

یہ ٹھیک ہے کہ آج کل بھی کچھ لوگ نظریاتی ’چنیا بیگم‘ چڑھا کر اپنے تئیں دگلے والی پلٹن کے کمیدان بنے ایسے ہی کسی بھی معمولی سی بات پر دوسروں کو دائرہ اسلام سے خارج کرتے ہیں، لیکن یہ ان کا اور آپ کا آپس کا معاملہ ہے۔ ہمیں اس سے بھلا کیا علاقہ۔


میاں آزاد اپنے دل میں سوچے کہ اللہ اللہ ریل کا اسٹیشن کیا خاصہ میلہ ہے۔ یہ بھیڑ، یہ رونق، بھئی واہ رے لکھنو۔ میاں آزاد ٹہلتے ہوئے اسٹیشن کے اندر گئے۔ ہوٹل دیکھا تو باچھیں کھل گئیں۔ اہوہوہو کیا صاف و شفاف ہے۔ ہر شے قرینے سے چنی ہوئی۔ در و دیوار سے صفائی برس رہی ہے۔ ہر سمت نور کا عالم ہے۔ اس سرے سے اس سرے تک میز اور اس کے گردا گرد کرسیاں گلاس چنے ہوئے۔ لمپ اور کنول ہر طرف روشن ہیں۔

چپراسی نہایت ہی قیمتی بیش بہا، پلیٹوں میں طرح طرح کا انگریزی کھانا لایا۔ میاں آزاد نے چھری کانٹے سے خوب مزے سے چکھا اور سوڈا واٹر اور لیمونیڈ پیا۔ باہر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ میاں خوجی بھی بستر جمائے ہوئے پراٹھے اور کباب کلچے چکھ رہے ہیں۔

آزاد: واہ استاد، تم تو خوب مزے سے کباب اڑا رہے ہو۔
خوجی: پھر کوئی شراب اڑائے کوئی کباب کھائے۔

آزاد: ایں شراب؟ لاحول ولا قوۃ۔ اے میاں شراب کس نے منھ سے لگائی۔ یہ کس کی شامت آئی؟ یہاں دخت رز سے واسطہ ہی نہیں رکھتے۔ بنت العنب کے عاشق دلدادہ کوئی اور ہی ہوں گے۔ قسم قرآن کی کس مردک نے شراب کا ایک قطرہ بھی چھوا ہو۔ شراب پی ہو تو سور ہی کا گوشت کھایا ہو۔

خوجی، مسکرا کر: تسلیم۔ ایک نہ شد دو شد۔ آپ نے سور کا گوشت بھلا کب چھوڑا ہو گا۔ واللہ مانتا ہوں۔ کہنے لگے شراب پی ہو تو سور کا گوشت کھایا ہو۔ معقول۔ یہ تو آپ تب کہیں جب آپ اس کو حرام یا مکروہ سمجھیں۔ یار آج تو تم نے غضب ہی کر دیا۔

آزاد: ارے بھئی آخر کیا کیا، کچھ کہو گے بھی یا ملاحی ہی سنائے جاؤ گے۔ سبحان اللہ، قسم لے لو جو ہم نے شراب کو ہاتھ بھی لگایا ہو یا سور کے گوشت کی صورت بھی دیکھی ہو۔

خوجی: مانیں کیا خاک۔ ہم نے اپنی آنکھوں دیکھا کہ چھری کانٹا کھٹا کھٹ چل رہا ہے۔
آزاد: تو بھائی چھری کانٹے سے کوئی شراب پیتا ہے؟
خوجی: ہم کیا جانیں۔ ہماری جانے جوتی کہ شراب کیوں کر پیتے ہیں۔
آزاد: آپ ایک کام کیجے، ہوٹل میں جا کر۔
خوجی: توبہ توبہ، [اپنے کان پکڑ کر]۔ خداوندا بچائیو، گنہگار بندہ ہوں۔ ارے توبہ ہوٹل اور ہم جائیں۔

خوجی نے کباب اور کلچوں پر خوب ہتھے لگائے۔ جب صفا چٹ کر چکے تو حلوائی کی دکان سے برفی لائے اور افیون کے نشے میں ٹونگارنے لگے، تو اتنے میں ایک صاحب باریش دراز نے میاں آزاد کا مخاطب کر کے کہا کہ کیوں حضرت آپ کا اسم مبارک؟ یہ بولے آزاد۔ وہ مسکرائے اور کہا کہ ہاں واللہ۔ آپ کے قد و قامت اور وضع قطع پر یہ نام موزوں ہے۔ ملت کیا ہے؟

آزاد: حضرت بندہ مسلمان ہے اور مسلّم ایمان ہے۔ پابند شرع۔ آپ کا اسم شریف جناب مولوی صاحب؟
مولوی صاحب: اسم شریف تو چھپر پر رکھیے، اس وقت تو مجھے افسوس کرنے دیجیے۔

آزاد: بسم اللہ، آپ افسوس کر لیجیے، بلکہ رو دیجیے۔ مگر سنیے تو سہی، محرم الحرام کے دن قریب ہیں۔ خوب پیٹ بھر کر رو لیجیے گا۔ ایسی بیتابی کیا ہے؟

مولوی صاحب: آپ مسلمان اور پابند شرع اپنے آپ کو بتاتے ہیں اور ہوٹل میں جا کر شراب خانہ خراب استعمال میں لاتے ہیں۔ مرد خدا، آخر انجام کی بھی فکر ہے یا سگ دنیا ہی بنے رہو گے؟

آزاد: قبلہ بس اب کیا کہوں۔ بجز سکوت کے اور کوئی کلمہ زبان پر نہیں آنے پاتا۔ لاحول ولا قوۃ۔

مولوی صاحب: بے ادبی معاف، لاحول تو آپ اپنے ہی اوپر پڑھتے ہیں۔ آپ سے حرکت شیطانی ہی ایسی سرزد ہوئی۔ مگر بحمدللہ کہ آپ کا نفس لوامہ تو آپ کو ملامت کرتا ہے۔

آزاد: مولانا خدا کی قسم میں نے ہوٹل میں صرف کھانا کھایا، مگر وہ اغذیہ جو شرع کی رو سے حرام نہیں۔ پس نظر انصاف سے دیکھیے تو اس میں قباحت ہی کیا ہے۔ آخر روم [استنبول] میں بھی تو صغیر و کبیر اور بڑے برے علما متبحر عیسائیوں کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں۔ پھر یہاں ہندوستان کے مسلمان اس کو داخل گناہ کیوں سمجھنے لگے؟ میں نے کیا کفر کیا کہ مردود مطرود اور زندیق اور ملحد اور مرتد بنایا جاتا ہوں۔

مولوی صاحب: مجھ سے سنیے۔ میں عرض کروں نہ، ہوٹل میں جانا اہل اسلام کے لیے مستحسن نہیں۔ جو کھانا آپ نے ہوٹل میں چکھا ہے، اگر باہر منگوا کر اور فرش بچھوا کر چکھتے تو چنداں مضائقہ نہ تھا۔ گو یہ بھی معیوب تھا مگر اس درجے نہیں۔ پھر آپ لاکھ قسمیں کھائیے، قرآن اٹھائیے، یقین کس ملعون کو آئے گا کہ آپ نے شراب نہیں پی یا سور کا گوشت نہیں کھایا۔ کاجل کی کوٹھری میں جو جائے گا وہ منھ کالا کر کے آئے گا۔ کوئلوں کی دلالی میں ہاتھ کالے ہی ہوتے ہیں۔ روم کی نہ کہیے۔ شاہ ایران مزے سے شراب ناب اور بیش بہا برانڈی نہیں اڑاتے؟ پھر اس سے بادہ خواری کا جواز ثابت نہیں ہوتا۔ رومی لاکھ عیسائیوں کے ساتھ لقمے لگائے اور بے تکلفی سے کھائیں، ہم کو تو ایسا نہ چاہیے۔ ہمارے رسوم کے خلاف ہے۔ آپ کو روم میں رہنا ہے یا ہندوستان میں؟ روم کی بات روم کے ساتھ۔ آخر باہر بھی تو کباب، کلچے، شیرمال، پراٹھے، باقرخانی، روغنی روٹی، بسکٹ، سب ہی کچھ بکتا ہے، پھر وہاں کھانے میں کیا بہتری تھی؟ مفت میں اپنے آپ کو نکو بنایا اور ہنسوانا کون سی دانائی ہے۔

آزاد: حضرت وہاں اول تو کھانا عمدہ اور لذیذ۔ دوسرے مقام صاف و شفاف۔ جس لطف سے ہم نے وہاں کھانا کھایا وہ یہاں کجا۔ قلی کھڑا صاف ستھرا پنکھا جھل رہا ہے۔ پلیٹیں صاف، میز شفاف، چار چار چپراسی خدمت کے لیے کھڑے ہیں۔ یہاں یہ باتیں کجا۔ لاحول ولا قوۃ۔

مولوی صاحب: کھانا عمدہ تو آپ سمجھتے ہوں گے۔ باقی رہا پنکھا، ایک پیسہ دے دیجیے، گھنٹہ بھر پنکھا جھلوا لیجیے۔ اور صفائی کو مسافرت سے کیا کام۔

بشکریہ ہم سب