راوی بیان کرتا ہے کہ دور بہت دور مارگلہ کے پہاڑوں کی ترائی میں ایک گاؤں تھا۔ ویسا ہی جیسا دیسی گاؤں ہوتا ہے۔ ایک چشمہ، ایک جوہڑ، گاؤں سے کچھ باہر ایک قبرستان، اس کے بیچ میں برگد کا گھنا پیڑ اور بہت سے شرارتی بچے۔ پچھلے الیکشن میں مقامی ایم این اے نے قبرستان کے گرد بہت اچھی سی چھے فٹ اونچی چار دیواری تعمیر کر دی تھی۔ حکمت اس کی غالباً یہ تھی کہ باہر کے لوگ بلاوجہ اندر نہ جائیں اور اندر کے لوگ بھی باہر آنے سے گریز کریں۔
تو ایسا ہوا کہ دو شرارتی بچوں نے اخروٹوں کے باغ پر چھاپہ مارا۔ پتھر مار کر اور ٹہنیاں ہلا ہلا کر اخروٹ گرانے لگے۔ شور سن کر باغ کا راکھا خبردار ہوا تو وہ جھولی بھر کر بھاگے اور سیدھا قبرستان میں جا کر دم لیا۔ برگد کے گھنے پیڑ کے نیچے بیٹھ کر انہوں نے مال غنیمت تقسیم کرنا شروع کیا اور جھولی کھولی۔ دو اخروٹ لڑھک کر ساتھ موجود دیوار کے ساتھ جا گرے۔ تقسیم شروع ہوئی ”یہ ایک تیرا، یہ ایک میرا۔“
اتنی دیر میں بھولا نامی ایک بچہ قبرستان کے باہر سے گزرا گو وہ سائیکل پر سوار تھا مگر بلند چاردیواری کے باعث اسے اندر کچھ دکھائی نہ دیا۔ بس اس نے یہ سنا ”یہ ایک تیرا یہ ایک میرا“ ۔ اسے قبرستان کے متعلق سنی ساری باتیں یاد آ گئیں۔ قبرستان، قبر کا عذاب، سوال جواب کرنے والے فرشتے، جن بھوت اور بہت کچھ۔ خوف سے اس کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔ اس نے گھبرا کر تیز تیز پیڈل مارے اور گاؤں کے قریب پہنچ گیا۔
وہاں اسے باہر ہی بابا جمیل دکھائی دیا۔ بابے کی عمر کوئی اسی برس تھی۔ کمر اس کی کمان بن چکی تھی، جوڑوں کے درد کے باعث قدم اٹھانا اس کے لیے مشکل تھا۔ لاٹھی کے سہارے چلتا اور ہر دس قدم کے بعد سانس لینے کو رکتا۔ لیکن بہرحال وہ تھا تو گاؤں کا بڑا اور اس کی نظریاتی اور اخلاقی سرحدوں کا محافظ۔ اس نے بھولے کو گھبرائے ہوئے دیکھا تو روک کر پوچھا کہ کیا بات ہے، کس نے ڈرایا ہے؟ کیا ڈاکو آن پڑے ہیں یا اس سے بھی برا ہو گیا ہے اور پولیس چھاپہ مارنے آ رہی ہے؟
بھولے نے اکھڑی ہوئی سانس کے ساتھ بتایا ”وہاں قبرستان میں شیطان اور جنت کا فرشتہ بیٹھے آپس میں روحیں تقسیم کر رہے ہیں“ ۔
بابے جمیل کو یقین نہ آیا مگر بھولے نے بہت اصرار کیا اور قسمیں کھائیں تو وہ لنگڑاتا ہوا اس کے ساتھ قبرستان کی طرف چل پڑا۔
اب مغرب کا وقت قریب تھا۔ ملگجا سا دھندلکا چھانے لگا تھا۔ قبرستان کی چار دیواری کے باہر پہنچ کر بابے نے واقعی اندر سے آوازیں سنیں ”یہ ایک تیرا، یہ ایک میرا“ ۔ بابے کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ شیطان کے خوف سے وہ دونوں کانپ رہے تھے مگر پھر جنت کا فرشتہ دیکھنے کا شوق بابے جمیل پر غالب آیا۔ بابے جمیل نے بھولے کو کہا کہ ”ایک بار جیتے جی دیکھ لیتے ہیں کہ شیطان اور فرشتہ کیسے ہوتے ہیں“ ۔
وہ دیوار کے قریب ہو کر اچک اچک کر اندر دیکھنے کی کوشش کرنے لگے۔
اندر دونوں بچے اب تک انصاف کے مطابق تقسیم مکمل کر چکے تھے۔ پہلا بچہ دوسرے کو کہنے لگا، ”پانچ میں لے چکا ہوں، پانچ اور مل گئے۔ اب باقی دیکھ لیتے ہیں۔ یہ دیوار والے دونوں بھی آپس میں بانٹ لیں تو ہمارا کام ختم ہو جائے گا“ ۔
راوی بیان کرتا ہے کہ عمر رسیدہ اور کمر خمیدہ بابا جمیل جو جوڑوں کی تکلیف کی وجہ سے بمشکل قدم اٹھا پاتا تھا، سائیکل سوار بھولے سے پورے پندرہ منٹ پہلے گاؤں پہنچ گیا۔
تو صاحبو، گھبرانا نہیں ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ تقسیم کرنے والا ضروری نہیں شیطان ہی ہو، وہ فرشتہ بھی ہو سکتا ہے۔ اور عین ممکن ہے کہ بندوں کی نہیں بلکہ اخروٹوں کی تقسیم کے لیے بات کی جا رہی ہو۔
مغرب سے درآمد شدہ ایک حکایت کی تخریب و تحریف۔