483

قیامت خیز زلزلے کی روداد!

عام دنوں کی طرح8 اکتوبر2005ء کے روز بھی مظفرآباد اوربالاکوٹ میں لوگ خوشیوںمیں مگن تھے کسی کویہ گمان بھی نہ تھاکہ آن کی آن میںوہ فنا کے اندھیرے میں اتر جائیں گے۔ایک ہی جھٹکے نے ہنستے بستے شہر مظفرآباد کو تباہ کرکے رکھ دیا۔زلزلے کے پہلے ہی جھٹکے کے ساتھ جب میں اورمیرے بچے قیام گاہ سے باہرآئے تومحلے کے بیشترمکانات کو زمین بوس ہوئے دیکھا۔ میں نے اپنے گیٹ سے باہر قدم رکھا تو زمین پرخوفناک دراڑیں پڑی تھیں۔گھرکے سامنے والی پہلی گلی بچوں ،جوانوں ،بوڑھوںاورخواتین کی لاشوں سے اٹی پڑی دیکھ کر الٹے قدم پھر گھرکے صحن میں اپنے بچوں کے پاس پہنچا۔ گھرکے صحن میں بیٹھے ہم مظفرآباد کی پہاڑوںکی طرف دیکھ رہے تھے توان پرکپکپی طاری تھی جبکہ زمین مسلسل کانپ رہی تھی اوردو یوم تک آفٹر شاکس کی وجہ سے زمین لرزتی اور کانپتی رہی ۔ ہمارے گھرکے عین سامنے ہمارے انتہائی شفیق اورہردلعزیز ہمسایہ انجینئر بشیر صاحب کے تمام اہلخانہ بحفاظت گھرسے باہرآئے لیکن ان کی بہو نے ان سے کہاکہ ان کی کوئی چیزاندر رہ گئی ہے وہ اسے لے آتی ہیں جونہی وہ گھرمیں داخل ہوئیں توپوری کوٹھی گرگئی اوروہ وہیں جان بحق ہوئیں اس طرح ان کے دوماہ کے شیرخواربچے کے سر سے ماں کا سایہ اٹھ گیا۔ میرے پڑوس میں انتہائی کنہ مشق لیکچرار افتخاراحمد بھی اپنے گھرکے ملبے کے نیچے آکرجان بحق ہوئے۔سری نگرسے تعلق رکھنے والے میرے پڑوسی حیدربھائی ایک بچے کوسکول چھوڑ کرآئے تھے جونہی وہ گھرمیں داخل ہوئے توزلزلہ ہوا ،تین منزلہ مکان جس میں وہ عارضی طور پرمقیم تھے زمین بوس ہوگیا وہ خود اور ان کی اہلیہ جوضلع پلوامہ سے تعلق رکھتی تھیں جان بحق ہوئیں لیکن ان کاپانچ سالہ بچہ کئی گھنٹوں کے بعد مکان کے ملبے سے زندہ باہرنکال لیاگیا جس پرسب متعجب ہوئے۔ موبائل فون ابھی تک عام نہیں ہوئے تھے البتہ لینڈلائن فون کے کنکشن ہمارے گھروں میں نصب تھے ۔ مظفرآباد شہرکا تمام مواصلاتی نظام آن واحد میں ختم ہوگیا۔اس لئے مظفرآبادسے کسی کو یہ پتا ہی نہ چل سکا کہ زلزلے نے کس قدر قیامت ڈھائی ۔اگرچہ اسلام آباد راولپنڈی میں بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے گئے تھے اوراسلام آبادکامارگلہ ہوٹل تباہ ہو چکا تھا لیکن یہ جھٹکے اس قدر قیامت خیز نہیں تھے جو شدت اس کی مظفرآباد یا بالاکوٹ میں تھی۔ مظفرآباد جانے والے تمام راستے پہاڑ ٹوٹ جانے کی وجہ سے بند پڑے تھے۔ ظہرسے قبل ہم دوسرے محلے میں پہنچے جہاں کچھ اراضی خالی تھی تودیکھاکہ زلزلے سے بچ نکلنے والے آس پاس کے تمام محلے والے ہم سے پہلے اس اراضی میں پہنچ چکے تھے اورتوبہ واستغفارسب کی زبان پر تھا۔رات ہم نے کھلے آسمان کے نیچے اس عالم میں گزاری کہ دائیں بائیں لاشیں ہی لاشیں تھیں کیونکہ جن لوگوں کے عزیرواقارب پہلے جھٹکے میں جاں بحق ہوئے تھے وہ انہیں اس کھلی اورخالی ارضی میں اپنے ساتھ لائے تھے ۔انہیں دفنانے کے لئے قبرستانوں تک پہنچنے کی کسی میں تاب تھی اورنہ قبرستانوں کی طرف جانے والے راستے موجود رہے تھے سڑکیں پھٹ چکی تھیں اوران پر مکانات آکرگرے تھے۔کفن دستیاب نہ اورنہ ہی جنازہ پڑھانے والے ۔ یہ کھلی اورخالی اراضی ہمارے دفترسنیٹرل پلیٹ قلعہ مظفرآبادکے باکل عقب میں تھی کہ جس میں لائے گئے بے شمار میتوں کاجنازہ ہم نے پڑھایا اورہمارے دفتر کے سامنے ایک خالی جگہ پڑی تھی جہاں لوگوں نے اپنے عزیزوں کی میتوں کو دفنانے کے لئے اسی میں قبریں کھو دیں۔ اگلے روزہم نے قریبی قبرستانوں میں جاکردیکھاکہ ایک ہی خندق میں کئی کئی لاشوں کو بغیرجنازہ دفنایا جاتا رہا۔میتوں کوغسل دینا یاکفن تیارکرنا ممکن ہی نہ تھا۔ ہمارے اس وقت کے ناظم دفترشاکرعلی خان کی اہلیہ اس زلزلے میں اپنے چارماہ کے شیرخواربچے کے ساتھ جاں بحق ہوئیں۔جنہیں ہم نے امانتاًَ مظفرآباد میں دفنا دیا اورتین ماہ کے بعد ان کی لاشوں کونکال کر خاتون کے آبائی علاقے میں بھیج دی جہاں انہیں آبائی قبرستان میں دفنایاگیا۔ ہمارے اس وقت کے کمپیوٹرآپریٹر محمدحنیف اعوان جو آج کل چیف جسٹس آف آزادکشمیرکے پرنسپل سیکریٹری ہیں کی آٹھ سالہ بیٹی کرن بھی اس زلزلے میں جان بحق ہوئیں۔کرن حنیف کاجنازہ پڑھنے والاکوئی دستیاب نہ تھا بس نفسی نفسی کے عالم میں سب اپنے مرحومین اوراپنے زخمیوں کے ساتھ مصروف تھے ۔بس قیامت صغریٰ کاعالم تھا۔اب کی صورتحال یہ ہے کہ سانحہ8 اکتوبر2005 ء میں تباہ ہونے والے شہر پہلے سے کہیں بہتر آباد ہو چکے ہیں، لیکن ان شہروں کے مکین اپنے ان پیاروں کو نہیں بھلا پائے ،جو ان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدا ہو کر زیر زمین جا بسے ہیں ۔ آزاد کشمیر میں آنے والے زلزلے کو 15سال بیت چکے ہیں۔لیکن ہم لوگ رب العالمین کے احکامات پرعمل پیراہونے کے بجائے اپنے رب کو بھول رہے ہیں۔ 8 اکتوبر 2005ء کے قیامت خیز زلزلہ جس کی شدت ریکٹر سکیل پر 7.6تھی سے آزاد کشمیر اور مانسہرہ میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی، اس زلزلے میں آزادکشمیرکا دارالحکومت مظفرآباد اور صوبہ پختونخواہ کے بالاکوٹ شہر مکمل تباہ جبکہ باغ، ہزارہ اور راولاکوٹ میں ہزاروں لوگ متاثر ہوئے ۔ آزاد کشمیر کے شمالی اضلاع کو اس بری طرح جھنجوڑ ا کہ آن کی آن میں 17ہزار بچوں سمیت 73 ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے تھے اور ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ لوگ زخمی ہوئے۔چھ لاکھ گھر تباہ ہوئے جبکہ 28 لاکھ لوگ آناً فاناً بغیر چھت کے کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے۔ اس زلزلہ کا مرکز مظفرآباد سے بیس کلومیٹر شمال مشرق میں تھا ۔ نقصان کا تخمینہ تقریبا 124ارب روپے لگایا گیا۔ سکول، ہسپتال، سڑکیں اور سرکاری دفاتر سب کچھ ڈھیر ہو چکا تھا۔ 8 اکتوبر 2005ء کے زلزلہ کی شدت اور سنگینی کا اس بات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اتنا عرصہ گزر جانے اور ملکی و عالمی سطح پر تمام ممکنہ اور میسر وسائل استعمال کیے جانے کے باوجود نہ تو نقصانات کا پورے طور پر تخمینہ لگایا جا سکا ہے، نہ تمام متاثرہ علاقوں تک رسائی ممکن ہو سکی ہے ۔ دنیا کے کئی ممالک بالخصوص مسلم ممالک اورسب سے زیادہ ترکی نے اس سانحے کے دوران پاکستان کی بھرپور امدادکی،مظفرآباد کودوبارہ تعمیرکرنے میں ترکی نے جورول نبھایا اس پر وہ سب سرخ رنگ کی تعمیرات گواہ ہیں کہ جنہوں نے مظفرآبادکے شہرکورونق بخشی ہے ۔ ٭٭٭٭٭

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز