133

تہاڑ جیل کشمیری مسلمانوں کی قتل گاہ

اسیران کشمیر کوبھارتی جیلوں میںہرلمحے پہ بے پناہ مظالم،بے رحمانہ تشدد اور انتقامی کارروائیوں کاسامنا ہے مگراس کے باوجودوہ مطالبہ آزادی اوراپنے سچے موقف پرچٹان کی طرح ڈٹے ہوئے ہیں۔ان کے عزم وہمت کو دیکھ کر چانکیہ پالیسی سازوں کویہ سوجھی کہ اسیران کشمیر کو یکے بعددیگرے جیلوں اوراذیت خانوں کے اندر ہی ابدی نیندسلادینے سے ہی بھارت کاکلیجہ ٹھنڈاہوسکتاہے۔بھارت کے دراوغان قفس کوآڈرملاہے کہ وہ عقوبت خانوں میں پڑے کشمیری محبوسین کوتڑپاٹرپاکرقتل کردیں۔دہلی کی تہاڑ جیل میں الطاف احمدشاہ کاقتل اس کر یہہ الجہت داستان اس پر شاہد ہے ۔ رواں ماہ دس اکتوبر کو الطاف احمد شاہ کودہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں ابدی نیدسوگئے جہاں انہیں آخری مرحلے پر گردوں کے سرطان کی تشخیص کے بعد تہاڑ جیل سے منتقل کیا گیا تھا۔ الطاف احمد شاہ المعروف الطاف فنتوش مرحوم راہنماسید علی شاہ گیلانی کے داماد تھے اور وہ 2017 میں گرفتاری کے بعد سے نئی دہلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں پابندسلاسل تھے۔وہ گردوں کے سرطان میں مبتلاتھے ،حراست کے دوران انہیں مکمل طور پر علاج ومعالجہ کی سہولیت سے محروم رکھاگیاجس کے باعث وہ تہاڑ جیل کے قیدی کی حیثیت میں داعی اجل کولبیک کہہ گئے ۔بدنامہ زمانہ تہاڑ جیل کی تاریخ ہے کہ اس کے اندرہی معروف حریت راہنما مقبول بٹ اورافضل گوروکوپھانسی دے کر شہید کردیاگیا،یوں الطاف احمد شاہ کشمیر کے تیسرے قیدی ہیں کہ جنہیں اس قتل گاہ میں مظلومیت کے عالم میں شہید کر دیا گیا۔ا س سے قبل بھارت کی مختلف جیلوں اورعقوبت خانوں میںکئی محبوسین کشمیرکوجیلوں میں اذیتیں دے کر شہید کر دیا گیا جن میں مرحوم راہنماسیدعلی شاہ گیلانی کے معتمدخاص محمد اشرف صحرائی اورجماعت اسلامی جموںوکشمیرسے وابستہ غلام محمد بٹ بھی شامل ہیں۔ اگرچہ گوانتاناموبے کیوبا کی سرزمین صوبہ گوانتانمو کی خلیج گوانتانامو میں امریکی بحری اڈے پر واقع اس بدترین تعذیب خانے کانام ہے کہ جو 2001 میں امریکہ کی طرف سے افغانستان پر جارحیت کے بعدقائم کیاگیااوردنیاپھر سے مسلمانوں کولاکے یہاں شرمناک طریقوں سے بدترین تعذیب کانشانہ بنایا جاتارہاجس پرپوری دنیامیں ایک ہلچل پیدا ہوئی اور اسے بندکرنے کے لئے زور دار صدائیں بلند ہوئیں۔ تاہم بھارت کے تعذیب خانوں کی المناک روداد سامنے نہ آنے اوراندرکی قبیح صورتحال واشگاف نہ ہونے کے باعث گوانتا ناموبے کی طرزپر دہلی کی تہاڑجیل سے لیکر بھارت کے قائم کردہ تمام تعذیب خانوں کی طرف کوئی توجہ ہے اورنہ کوئی شنوائی ۔ان عقوبت خانوںمیں کشمیری اسیران کوبرس ہابرس قید میں رکھا جاتا ہے اوران کے ساتھ انسانیت سوزسلوک روا رکھا جارہاہے۔گوانتاناموبے کی طرزپران جیلوں میں پابندسلاسل کشمیری نوجوان کی روح فرسا اور شرمناک کہانیاں عالمی ضمیرکی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کے لئے پیچ وتاب کھارہی ہے۔ اسیران کشمیری کی دردناک کہانیوں کے اقتباسات انسانیت کو شرمسار کررہے ہیں اور ہرصاحب ضمیر کے ضمیرپردستک دے رہے ہیں۔ تادم تحریردہلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں آسیہ اندرابی ،فہمیدہ صوفی،ناہید نصرین ، محمد یاسین ملک ،شبیراحمد شاہ سمیت کثیرتعدادمیںکشمیری حریت پسند مقیدہیںکہ جن کے ساتھ جانوروں سے بھی بدترسلوک روارکھاجارہاہے ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ دور وحشت کی آغوش میں جنم لینے والا انسان اپنی بقا کی جنگ میں طاقتور ہوتا ہے ۔بھارتی جیلوں میں دردوالم کی تصویربنے ہوئے کشمیری اسیران کودیکھ کرگمان گذرتاہے کہ یہ اکیسویں صدی میں نہیں بلکہ پتھرکا زمانہ ہے ۔یہ محض جبراوربربریت کی ایک تصویرنہیں بلکہ یہ بھارت کے جمہوری چہرے پہ طمانچہ ہے۔ دہلی کی تہاڑجیل میں پابندسلاسل اورپابہ زنجیرکشمیری قیدیوںکے ساتھ روارکھے جانے والے انسانیت سوزسلوک جہاں بھارتی استبدادی چہرے کوبے نقاب کرتاہے،وہیںبھارت کی جیلوں میں بند کشمیریوں کے ساتھ روا رکھے جارہے جابرانہ ،ظالمانہ اورپرتشدد سلوک دنیامیں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے اداروں کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔بین الاقوامی تنظیموں خاص کر اقوامِ متحدہ انسانی حقوق کمیشن، ایشیا واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی یہ منصبی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مختلف جیلوں میںبندکشمیری محبوسین کی زندگیوں کی سلامتی کو یقینی بنائیں اور زخمیوں کے خاطرخواہ علاج ومعالجے کے لیے انتظامیہ کوپابند بنائیں۔ کشمیری قیدیوں کو محض سیاسی انتقام گیری کے تحت سری نگرسے نکال کرجموں اور بھارت کی جیلوں میں منتقل کیا جاتا ہے۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ بھارت کے حکمران اخلاقی اقدار کھو چکے ہیں اور اسی لیے وہ نہتے محبوسین اور تحریک آزادی کشمیرکے متوالوں پر اوچھے اور غیر انسانی سلوک روارکھتے ہیں۔اسیران کشمیرکے حوالے روارکھے جانے والے سلوک سے ہر سنجیدہ فکر شہری کو دہلا کے رکھ دیا، کہ اکیسویں صدی کے اس دور میں ، جب ہم تہذیب و ترقی کے ساتویں آسمان کو چھونے کے دعوے کر رہے ہیں، کیا ایسا ممکن ہوسکتا ہے؟سچ پوچھیں محبوسان کشمیربھارتی جیلوں میں پڑی زندہ لاشیں ہیں اور انکے ساتھ روارکھے جانے والے ظالمانہ سلوک سے عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی گئیں ہیں۔سری نگرہائی کورٹ بارکے سابق صدر میاں عبدا لقیوم ،حقوق البشرکی مقامی تنظیم اور(APDP)کے صدر پرویز امروزکے دفاتر میں فائلیں اٹی پڑی ہیں کہ جن میں درج ہے کہ کشمیرکے کتنے نوجوان جرم بے جرمی کی پاداش میں مختلف عقوبت خانوں میںمسلسل پڑے ہوئے ہیں اورانکی رہائی کی طرف کوئی التفات ہی نہیں۔ وادی کشمیرسے سینکڑوں میل دور دہلی کی تہاڑ جیل اوربھارت کی مختلف ریاستوں میں قائم تعذیب خانوں میں رکھے گئے کشمیری نوجوانوں کی ایک بڑی تعدادہے۔ ان میں سے ایسے بھی ہیں کہ جن پر عائد بدنام زمانہ ظالمانہ ایکٹ کوپہلے ہی عدالتوںسےcosh)) ہوا ہے لیکن اس کے باوجود انہیں دوسری بار اسی ظالمانہ قانون کے تحت عقوبت خانوں میںبھیج دیا گیا ہے۔ ایسے بھی ہیںکہ جن کے تمام فرضی کیسوں کی ضمانت ہوچکی ہے، البتہ انہیں پھر بھی رہا نہیں کیا جارہا ہے اور انہیں نظربندی کے نام پر حبسِ بے جا میں رکھا گیا ہے۔ جن قیدیوں کے کیس عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں، انہیں اکثر اوقات تاریخ پیشی پر حاضر نہیں کیا جاتا ہے اور اس طرح سے ان کی غیر قانونی نظربندی کو طول دیا جارہا ہے ۔

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز