263

آزاد کشمیر کا یوم تاسیس

آج24 اکتوبرآزاد جموںوکشمیرکا یوم تاسیس ہے۔بلاشبہ یہ دن صدیوں کی قربانی کے روشن سویرے کا نام ہے جسے لاکھوں ملت کشمیر نے اپنے لہو سے منور کیا ہے ۔24 اکتوبر1947کو یہ علاقہ ڈوگرہ شاہی سے جہاد بالسیف کے ذریعے آزادکرایاگیا ہے ۔ اس کا باقاعدہ نام ریاست آزاد جموں و کشمیر ہے ۔ 2008ء کی مردم شماری کے مطابق آزادکشمیرکی آبادی45,67,982 نفوس پرمشتمل ہے ۔آزادکشمیرکثیراللسان علاقہ کہلاتا ہے تاہم اس کی سرکاری زبان اردو ہے ۔اس علاقے میںسب سے زیادہ ہندکو زبان بولی جاتی ہے دوسرے نمبر پر پہاڑی اورپوٹھوہاری ہے جبکہ اس کے علاوہ بالترتیب گوجری، کشمیری ، پنجابی اورپشتو زبانیں بھی یہاں بولی جاتی ہیں۔ آج کے آزاد کشمیر کی شرح تعلیم 70 فیصد سے زائدہے ۔آج کا آزاد کشمیر 10 اضلاع،32 تحصیلوں اور182 یونین کونسلوں پرمشتمل ہے۔آزادکشمیر میں ترقی کا تناسب شاندار ہے ۔آزادکشمیرمیں ترقی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ہزاروں فٹ اونچے پہاڑ پر رہ رہی انسانی آبادی کو بھی پانی ،بجلی ،سڑک اورسکول کی سہولت میسر ہے ۔ 1947ء میں تقسیم کے بعد ریاست جموں و کشمیر کے ڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف ریاست کے مختلف حصوں میں جہاد بالسیف کے بعد ریاست جموں و کشمیر کے مغربی حصے پر ڈوگرہ مہاراجہ کا کنٹرول عملی طور پر ختم ہو گیا اور 24 اکتوبر،1947ء کو ان علاقوں میںآزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کے نام سے ایک عبوری ’’انقلابی‘‘حکومت قائم ہو گئی۔ اس حکومت نے پونچھ(موجودہ ضلع سدھنوتی) کے علاقے تراڑ کھل کے گاؤں جنجال ہل کو اپنا دارالحکومت قرار دے کر یہاں سے امور ریاست چلانا شروع کر دیے۔سردار محمد ابراہیم خان اس عبوری حکومت کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ 1948ء میں حکومت پاکستان نے معروف بیوروکریٹ اور مصنف قدرت اللہ شہاب کو اپنے نمائندہ کے طور پر جنرل سیکرٹری یا چیف سیکرٹری بنا کر بھیجا۔اپنی کتاب’’ شہاب نامہ‘‘ میں قدرت اللہ شہاب نے اس وقت کے دارالحکومت کا نقشہ کچھ یوں کھینچا ’’کشمیر کا دارالحکومت پلندری اور تراڑ کھل کے درمیان’’ جنجال ہل‘‘یاجنیل ہل نامی پہاڑی کی چوٹی پر واقع ایک چھوٹا سا گاؤں تھا، جس میں ڈھائی، تین درجن چھوٹے چھوٹے کچے مکان تھے۔ چند مکانوں میں حکومت کے دفتر تھے۔ باقی مکان صدر، وزرا اور دیگر سرکاری ملازمین کی رہائش گاہوں کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔ قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ یہاں مجھے بھی ایک کمرے پر مشتمل کچا کوٹھا مل گیا، جس کے ایک کونے میں باورچی خانے کے طور پر مٹی کا چولہا بنا ہوا تھا۔ دفتروں کے کمرے روایتی ساز و سامان سے محروم تھے۔ فائلوں کے لیے نہ الماریاں تھیں نہ شلف۔ عام طور پر پتھر کی سلوں کو ہموار کرکے ان سے کام لیاجاتا تھا۔ موسم کے لحاظ سے باہر درختوں کے سائے میں بیٹھ کر کام کرنے کا رواج بھی عام تھا۔جنجال ہل یاجنیل ہل نامی اس گاؤں میں اس دور کے کئی گھروں کی ڈھانچے اور باقیات اب بھی موجود ہیں۔ دارالحکومت کے لئے جنیل ہل کے مقام کا انتخاب اس لیے کیا گیا تھا کہ یہ گاؤں گھنے جنگل میں گھرا ہوا تھا اور ارد گرد سے نظر نہیں آتا تھا۔چونکہ یہ جنگ کا زمانہ تھا اور ہر روز بھارت کا کوئی نہ کوئی جہاز آ کر اس علاقے پر بمباری کرتا تھا۔ جنگل ہونے کی وجہ سے یہ مقام محفوظ سمجھا جاتا تھا اس لیے یہاں حکومت کا سیکرٹریٹ قائم کیا گیا۔قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیںدن بھر بھارت کے بمبار طیارے ہمارے اوپر سے یا دائیں بائیں سے پرواز کرتے ہوئے آتے جاتے رہتے تھے اور اپنے نشانوں پر اندھا دھند بم برسا کر خراماں خراماں واپس لوٹ جاتے۔ آزادکشمیرکی اس پہلی حکومت کی کابینہ میں کل 6 وزرا تھے اور ان سب نے اسی گاؤں کے مختلف گھروں میں اپنے دفاتر اور رہائشیں بنائیں۔پلندری شہری کی جامع مسجد میں ایک اجلاس ہو رہا تھا۔ سردار محمد ابراہیم خان اس اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔ اوڑی بارہمولہ کی طرف سے آئے ہوئے بھارت کے ایک جنگی جہازنے جب وہاں مجمع دیکھا تو بمباری شروع کر دی اور کئی لوگ زخمی ہوئے۔ لیکن قافلہ کے سالارسردار ابراہیم اس حملے میں بچ گئے۔ ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ نے بڑی کوشش کی کہ کسی طریقے سے سردار ابراہیم کا خاتمہ ہو جائے تاکہ یہ تحریک ختم ہو جائے۔ 1949ء کے اوائل میں جنگ بندی کے ساتھ ہی دارالحکومت جنجال ہل یاجنیل ہل سے مظفر آباد منتقل کردیا گیا۔کچھ دفاتر پرانی ضلع کچہری کے ٹوٹے پھوٹے کمروں میں سما گئے اور باقی دفاتر کے لیے اسی عمارت کے احاطے میں بہت سے ٹینٹ نصب کر دیے گئے۔ قریب ہی ایک ٹیلے پر سرکاری ملازمین کی رہائش کے لیے ایک خیمہ بستی قائم کر دی گئی۔اس وقت تک آزاد علاقے میں ٹیلی فون کی سہولت دستیاب نہ تھی۔ وفاقی دارالحکومت کراچی سے رابطہ کرنے کے لیے مری جا کر ٹیلی فون پر کراچی بات کرنی پڑتی تھی۔ مظفرآباد میں دارالحکومت کے قیام کے بعد سردار عبدالرب نشتر کی خصوصی ہدایت پرآزاد کشمیر میں ٹیلیفون کی سہولت فراہم کی گئی۔ یہ بات کسی شک سے بالاتر ہے کہ اسلامیان کشمیرکی’’ آزادکشمیر‘‘کے نام پر یہ آزادی ادھوری ہے کیونکہ ریاست جموںوکشمیرکے غالب حصے پر ابھی تک رام راج کاجابرانہ قبضہ ہے اور90 لاکھ سے زائد مسلمانوں کی آبادی گذشتہ74برسوں سے پنجہ ہنود میں جکڑی ہوئی ہے ۔تاہم بھارتی جابرانہ قبضے اوراس کے جارحانہ تسلط کا انکارکرتے ہوئے اسلامیان کشمیر کی جدوجہدآزادی جاری ہے اورآج تک لاکھوںکشمیر ی مسلمان تحریک آزادی کو اپنے لہو سے سیراب کر چکے ہیں ۔ اسلامیان کشمیر نے اپنی تحریک کیلئے اپنا تن ، من ، دھن اور سب کچھ قربان کر دیا ہے ۔ بھارت کے تمام مظالم ملت اسلامیہ کشمیر کے جذبہ حریت میں کمی نہ لا سکے۔ بھارت اسلامیان کشمیرکے جذبہ حریت کو دبا سکتا ہے اور نہ اس میں کمی لاسکتا ہے ۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اسلامیان جموںوکشمیر بھارت سے ہر صورت آزادی لے کر رہیں گے اور الحاق پاکستان کی منزل حاصل کر کے اپنے شہداء کے مشن کو پائیہ تکمیل تک پہنچائیں گے ۔ بہرکیف آج ہمارا موضوع آزادکشمیرکا یوم تاسیس ہے ۔یہ آزادی پلیٹ میں رکھ کرنہیں ملی بلکہ ایک تاریخ ساز عسکری جدوجہد کے طفیل کشمیرکے ایک حصے کوآزادی مل سکی۔

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز