107

عدالتی نظام میں اصلاحات کی ضرورت!

دنیا کے نقشے پرموجود 23 کروڑ 5 لاکھ57 ہزارآبادی کے حامل پاکستان کے قیام کے کارفرما عظیم مقاصد بھی تھے یاکہ یہ بے مطلب بنا تھا؟ تقسیم ہندکی تاریخ پڑھ لیجئے تو پتا چل جائے گا کہ پاکستان کا قیام بنیادی طور مسلمانان ہند کے حقوق اور مفادات کے حصول اور تحفظ کے لیے عمل میں آیا لیکن افسوس صد افسوس ان مقاصد کاحصول اب تک ممکن نہ ہوسکا اور مملکت خدادادکی تشکیل کے لئے دیکھے گئے خواب ہنوز تشنہ تعبیر ہیں۔ پاکستان کی تاریخ بتلا رہی ہے کہ قائداعظم اورلیاقت علی خان کی وفات کے بعد ناقص اورذاتی مفاد کی اسیر انتظامیہ نے اس ملک کو ان خطوط پر چلنے نہیں دیا جواس کے لئے متعین کردیئے گئے تھے۔اس ملک کے لئے جواعلیٰ اصول وضوابط مرتب کئے جاچکے تھے ان میںپاکستان کامطلب کیا لاالٰہ الااللہ کانعرہ جو’’نظریہ پاکستان ‘‘کہلاتا ہے۔ قرارداد پاکستان اور بابائے قوم کی مختلف تقاریرمیں موجود ہے، جس کا بنیادی نکتہ ایک فلاحی ریاست تھا۔ یہ مملکت لاکھوں لوگوں کی قربانیوں سے لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر قائم ہوئی،یہ ملک اس لئے بنا کہ اس کے مسلمان شہری اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی گزاریں سکیں مگر بد قسمتی سے ایسا نہ ہوا۔ ریاست کامنشور تھا کہ یہاں شہریوں کوگھر کی دہلیز پرسستا انصاف مہیا ہو گا ۔ لیکن یہ ممکن العمل نہیں بن سکا۔ ہزاروں واقعات موجود ہیں کہ جن سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہاں انصاف ناپید ہے۔ دوردورتک یہاں انصاف ہوتاہوا نظر نہیں آ رہا۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ انصاف ہوتا ہوا نظر آئے۔ علیٰ الرغم اس کے آج پاکستان میںچوکیدار سے لے کر ملک کے سربراہ ،،تھانے کے سنتری سے لے کر سرکاری اداروں کے اعلیٰ عہدیداروں تک سب کے سب تک حاکم بنے بیٹھے ہیں جبکہ نظام عادل غیرتسلی بخش ہے جس کی تازہ ترین مثال شاہ رخ جتوئی اور ان کے ساتھیوں کا قتل کے مقدمے سے بری ہوجانا ہے ۔ شاہ رخ جتوئی اور ان کے ساتھیوں نے 25 دسمبر2012ء کو شاہ زیب نامی نوجوان کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا ،قتل کرنے کے بعد شاہ رخ جتوئی دبئی فرار ہو گیا تھا، جہاں سے گرفتار کر کے اسے واپس پاکستان لایا گیا۔ 7 جون2013 ء کو جرم ثابت ہونے پر ٹرائل کورٹ نے شاہ رخ اور اُن کے ساتھی سراج تالپور کو سزائے موت کا حکم سنایا جبکہ دیگر دو مجرموں سجاد تالپور اور غلام مرتضیٰ لاشاری کو عمر قید کی سزا سنائی گئی،تاہم بعد ازاں ملزمان کی سزا عمر قید میں بدل دی گئی۔لیکن بالآخر10سال کے بعد سپریم کورٹ نے شاہ رخ جتوئی سمیت تمام مجرموں کو بری کردیاہے۔ مجرموں کی بریت کی وجہ سے پاکستان کے عدالتی نظام پر مذید سوالات اٹھ رہے ہیںاورپاکستان کے عوام کی طرف سے اس فیصلے پر پاکستان کے عدالتی نظام پر مایوسی کا اظہار کیاجا رہا ہے۔عوام پوچھتے ہیں کہ ہمارے ملک کا یہ کیسا عدالتی نظام ہے جہاں قاتل انگلیوں سے فتح کا نشان بنا کر جرم کا فخریہ اقرار کرے اور جج یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ قاتل ہے اس کو رہا کرنے پر مجبور ہو۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اب اگر کوئی امیر یا طاقتور شخص قتل کرتا ہے تو مقتول کے لواحقین پر دباؤ ڈال کر زبرستی دیت منظور کروا کر بری ہو جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں یہ دیکھنا عدالت کی ذمہ داری ہے کہ سمجھوتہ منصفانہ طور پر کیا گیا ہے یا پھر گواہوں اور لواحقین کو ڈرا دھمکا کر مجبور کیا گیا۔بہرصورت عدلیہ پر عوام کے بڑھتے ہوئے عدم اعتماد اور مایوسی کودیکھ کر عدلیہ کواپنامحاسبہ کرناچاہئے ۔ دنیا کے ایک سو اٹھائیس ممالک کے ڈیٹا پر مشتمل اس ادارے نے اس سال اپنی جو تفصیلات جاری کی ہیں، ان میں قانون کی بالا دستی یا رول آف لائ￿ ایک انتہائی اہم انڈکس ہے۔ اس تحقیق کے مطابق جنوبی ایشیا کے کئی ممالک میں عدلیہ کی کارکردگی کی صورت حال پاکستان کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے۔ رول آف لائ￿ انڈکس کے مطابق نیپال اپنی عدلیہ کی کارکردگی کے لحاظ سے 61 ویں، سری لنکا 66 ویں اور بھارت 69 ویں نمبر پر ہے۔پاکستان اس وقت انصاف کی فراہمی کے حوالے سے دنیا کے ایک سو اٹھائیس ممالک کی فہرست میں ایک سو بیسویں نمبر پر ہے۔اس رینکنک میں پاکستان سے نیچے افغانستان ہے، جس کا 122 واں نمبر بنتا ہے۔اس انڈکس کی پہلی دس پوزیشنوں میں سے سات پر مختلف یورپی ممالک کے نام ہیں جبکہ قانون کی حکمرانی کے لحاظ سے ڈنمارک دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ واضح رہے کہ کوئی بھی معاشرہ ہو لیکن عدل کا نظام معیاری ہے تو اس معاشرے کو کوئی طاقت ترقی کرنے سے نہیں روک سکتی۔ مظلوم کوانصاف اور مجرم کو سزا دلانے والا نظام اگر انصاف پر مبنی ہو تو معاشرہ نہ تباہ وبرباد ہوسکتا ہے اور نہ ہی پستی کبھی اس کا مقدر بن سکتی ہے۔ یہاں کا نظامِ عدل طبقاتی رہا، امیر اور غریب کے لیے علیحدہ علیحدہ معیار مقرر ہوئے۔امیر چاہے جتنا بڑا جرم کرے مگر اس کے اثرورسوخ کی وجہ سے وہ عدالتوں سے بری ہوکر باہر آجاتے ہیں۔دوسری طرف غریب کو ریاست انصاف کے وسائل ہی نہیں مہیا کرتی۔ وکیلوں کی بھاری بھرکم فیس اور مقدمات میں طوالت اس قدر بڑھا دی جاتی ہے کہ وہ اپنے حق کی جنگ لڑتے لڑتے ہمت ہار جاتے ہیں بلکہ مرجاتے ہیں۔ اپنی مرضی کی تاریخیں لینا اور اپنا مرضی کا جج مقرر کروانا اور جج سے اپنی مرضی کا فیصلہ لینا یہاں کامیابی سمجھی جاتی ہے۔پاکستان کے عدالتی نظام میں اصلاحات کی صرف بات کی جاتی ہے۔دیکھاجائے تو بات کھل کرسامنے آجاتی ہے کہ پاکستان میںروزاول سے ہی عدلیہ ریاست کے لئے ایک مضبوط ستون کے طور پرکھڑا نہیں ہو سکی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ قوانین اور ضوابط میں ایسی ترامیم کی جائیں تاکہ عدالتیں انصاف کی فراہمی کے لئے پابند ہوسکیں۔

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز