کہنے کو امریکہ اِس وقت اکلوتی سپر پاور ہے۔ عالمی سیاست کی صورت گیری مگر چین اور روس کے تابع ہو چکی ہے۔نوعمر امریکی معاشرے کے برعکس چینی قوم صدیوں پرانی تہذیب کی امین ہے۔چنانچہ جہاں امریکی طاقت کی زبان میں بات کرتے ہیں توچینوں نے اپنی عالمی حکمتِ عملی کو تدبر،معیشت اور تجارت پراستوار کررکھا ہے۔ جہاں دنیا بھر میں پھیلے 800 کے لگ بھگ امریکی فوجی اڈے امریکیوں کی ’جیو پولیٹیکل طاقت ‘ کا مظہرہیں ، تو وہیں143ممالک اور 160چینی بندرگاہوں پر مشتمل ’بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو‘، چین کی معاشی قوت کا اظہارہے۔ چینی بجا طور پر اپنے اس اقتصادی منصوبے کو ’بحری شاہراہ ریشم‘ کا نام دیتے ہیں۔ سی پیک کواس عظیم الشان عالمی منصوبے کا ‘فلیگ شپ پراجیکٹ‘ قرار دیتے ہوئے، ہمارے لئے بجا طور پراُسے ایک’گیم چینجر‘ کہاگیا۔بد قسمتی سے کچھ تو عالمی حرکیات اور کچھ ہماری اپنی نا لائقیاں آڑے آئیں۔ ثمر بارآورہونا تو دور کی بات، اپنی سست روی کی بناء پرایک عظیم منصوبہ دو نوں ملکوںکے بیچ گلے کی ہڈی بنتا دکھائی دے رہا ہے۔پاکستان کے لئے قرضوں کی واپسی ایک کڑا امتحان ہے، تو چین سرما ئے کی واپسی اورافرادی قوت کی سلامتی کے معاملے پر پریشان ہے۔یاد رہے کہ حال ہی میں اپنی روایت سے ہٹتے ہوئے ایک سینئر چینی مہمان وزیر ہمیںملک میں سیاسی استحکام پیدا کرنے کا سرِعام مشورہ دے چکے ہیں۔دوسری طرف اسلام آباد میںمنعقدہ ایک حالیہ تقریب میں چینی سفیر کی جانب سے ہمارے ایک غیر محتاط بیان کی جس غیر سفارتی انداز میں سختی کے ساتھ تردیدکی گئی اسے دو ملکوں کی سفارتی تاریخ کا ایک انوکھا اور غیر معمولی واقعہ سمجھا جائے گا۔ کہا جا رہا ہے کہ دو ملکوں کے تعلقات میں بظاہر سرد مہری کے آثار دکھائی دینے لگے ہیں۔ دو ملکوں کے مابین سال 1950ء میںقائم ہونے والے سفارتی تعلقات کی تاریخ میں سرد مہری پہلی بار نہیں آئی۔ پاکستان کو استعماری کیمپ کا حصہ سمجھنے کے باوجود چین نے صدیوں کی دانش بروئے کار لاتے پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان نے بھی ابتداء میں چین کی اقوامِ متحدہ میں داخلے کی حمایت کی۔ تاہم پاکستان کی سیاسی الیٹ، سول بیوروکریسی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی بودو باش اور مفادات کا جھکائو چونکہ مغرب کی جانب تھا، چنانچہ امریکی دبائو کے تحت پاکستان نے سال 1955 ء سے 1960 ء کے عرصے میں چین کی حمایت سے احتراز برتا۔اس کے برعکس چین نے ہندوستان کے ساتھ 1954 ء کے تجارتی معاہدے اور دوستانہ مراسم کے باوجود ’پختونستان‘ یا کشمیر جیسے معاملات پر پاکستان کے سا تھ ہمدردی کا رویہ اپنائے رکھا۔سال 1962ء میں چین اور بھارت کے درمیان جنگ پاک چین تعلقات میں گرم جوشی کا سبب بنی۔ پاکستان اگرچہ اپنے سرد جنگ کے اتحادی کی جانب سے بھارت کو دی جانے والی فوجی امداد پر پیچ و تاب کھاتا رہا ، تاہم چین کی جانب سے کشمیرکا محاذ کھولے جانے کے مشورے کو اس نے امریکہ کے اس وعدے پر نظر انداز کر دیا کہ جنگ کے بعد بھارت کو کشمیر کے مسئلے کے حل کے لئے مجبور کیا جائے گا۔ جنگ کے بعد وعدہ ایفا ء نہ ہوا تو پاکستان نے چین کے ساتھ سرحدی تنازعات طے کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے نئے باب کا آغاز کیا۔ سال 1964ء میں صدر ایوب نے چین کادورہ کیا، جہاں ان کا گرم جوشی کے ساتھ استقبال ہوا۔ 1965ء کی جنگ میں چین نے پاکستان کا بھر پور ساتھ دیا۔چینی وزیرِ اعظم چواین لائی نے بھارت کو صاف الفاظ میں جارح قرار دیا۔ یہ چین کی جانب سے عملی مداخلت کا واضح الٹی میٹم ہی تھا کہ بھارت مشرقی پاکستان پر حملے سے باز رہا۔ امریکی دبائو پر روس کی چھتری کے نیچے تاشقندمیں چین سے بالا بالا طے پانے والے معاہدے کے نتیجے میں پاک چین تعلقات ایک بار پھر سرد مہری کا شکار ہو گئے۔ تاہم جنرل یحییٰ نے حکومت سنبھالی تو چو ایم لائی نے انہیں خط لکھ کر تمام امور پر اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔یہی وہ دور تھا جب نکسن انتظامیہ نے چین کے ساتھ سفارتی روابط استوار کرنے کا فیصلہ انتہائی راز داری میں کیا۔ پاکستان نے دو ملکوں کے مابین اِس خفیہ سفارت کاری میں کلیدی کردار ادا کیا۔بدلے میں چین نے پاکستانی کی خودمختاری اور علاقائی سلامتی کی ایسے واشگاف الفاظ میں حمایت کی کہ نا صرف پاکستان بلکہ امریکہ کو بھی مشرقی پاکستان پر بھارتی حملے کے نتیجے میں چین کی طرف سے عملی مداخلت کا پورا یقین ہو گیا۔اگست1971ء میں بھارت اور روس کے درمیان دفاعی معاہدے کے بعد صورت حال مگربدل گئی۔حالات ہاتھ سے نکلنے لگے تو امریکہ کی دلچسپی مغربی پاکستان کی سلامتی اور خود پاکستان کی فوجی جنتا اور بھٹو صاحب کی توجہ بقیہ حصے پر اقتدارمیں حصے داری طے کرنے تک محدود ہو کررہ گئی۔چنانچہ چین نے بھی پاکستان کو جنگ کی بجائے مسئلے کا سیاسی حل ڈھونڈنے کا مشورہ دے ڈالا۔معجزوں کے انتظار میں بسر کرنے والے پاکستانی مگر جہاں ساتویں بحری بیڑے کی راہ دیکھتے رہے، تو وہیں ڈھاکہ میں چینی چھاتہ بردار بریگیڈ کے آسمان سے اترنے کے منتظر رہے۔ گزرے عشروںچین نے پاکستان کی ہرعالمی اور علاقائی فورم پر بھر پور حمایت کی ہے۔پاک بھارت کشیدگی کی ہر صورت حال میں چین نے ہمیشہ انتہائی اہم اور ذمہ دارانہ کردار ادا کیا ہے۔پاکستان کے بڑے دفاعی اور ترقیاتی منصوبوں میں چین کی چھاپ صاف نظر آتی ہے۔پاکستان کے مغربی اتحادیوں کے برعکس چین نے پاکستان کو اپنا وقتی دوست سمجھا، نا ہی اس کے حکومتی عہدیداروں نے کبھی دو ملکوں کے تعلقات کو سرِعام Transactionalقرار دیا۔ چین کو اس امر سے کبھی کوئی غرض نہیں رہی کہ ہمارے ہاں حکمران سویلین ہوں، فوجی ہوں یا کہ ہائبرڈ بندوبست بروئے کار ہو۔ چین نے مگر پاکستان میں کثیر سرمایہ کاری کے ساتھ متعدد منصوبے شروع کر رکھے ہیں۔ چنانچہ اِنہی منصوبوں کی کامیابی کے پیشِ نظر وہ پاکستان میں سیاسی استحکام دیکھنا چاہتا ہے۔ صدیوں کی دانش میں گندھی چینی سفارتکاری دوسرے ملکوں کے معاملات میں عدم مداخلت اور مروت پر مبنی رویوں پر استوار ہے۔ چنانچہ چینی پہلی برسرِ عام بولے ہیں تواسے محض وقتی سرد مہری قراردے کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پاک چین تعلقات میں ایک اور پہلو جو دور رس نتائج کا حامل ہے وہ نجی چینی کمپنیوں کی ہمارے ہاں براہِ راست سرمایہ کاری ہے۔ ’شہباز سپیڈ‘ کے ساتھ بجلی کے کارخانوں میں جو اربوں ڈالرز اندھا دھندجھونکے گئے تھے، اب ان کی واپسی کا وقت ہے۔ حالیہ آئی ایم ایف کے پروگرام کے اجراء کے لئے ان قرضوں کی ری شیڈیولنگ ایک کلیدی شرط تھی۔ ہمارے وزیر اعظم کی سربراہی میں درجنوں وزیروں مشیروں کی ’سوٹڈ بوٹڈ ‘ فوج ظفر موج جو کچھ مہینوں پہلے ہم نے ہفتہ بھر چین میں گھومتی پھرتی دیکھی تھی، بتایا جاتا ہے کہ وہ یہی فریاد لے کر وہاں گئی تھی۔ (جاری ہے)
34