ایک عالمی تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق فوجی آمریتوں کا رواج متروک ہوجانے کے باوجود دنیا بھر میں جمہوریت کا گراف زوال پذیر ہوتے ہوتے پچاس برس پیچھے جا پڑا ہے۔قوموں کی تاریخ پر نظر رکھنے والے صاحبانِ علم نے حالیہ برسوں میںجمہوریت کے زوال کی بڑی وجہ جمہوری طور پر منتخب حکمرانوں کی طرف سے انہی راستوں کو مسدود کئے جانے کی روش کو قرار دیا ہے کہ جن سے وہ خود برسرِاقتدار آئے ہوں۔ بتایا گیا ہے کہ آمرانہ مزاج رکھنے والے تمام حکمرانوں کی اقتدار سنبھالتے ہی اوّلین ترجیح تقسیم، دبائو حتی کہ متشدد ہتھکنڈوں کے ذریعے عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری کا خاتمہ ہوتی ہے۔ آمرانہ ذہنیت رکھنے والے حکمرانوں کے جن رویوں میں غیر معمولی مماثلت پائی جاتی ہے ان میں آئین سے روگردانی،عام انتخابات کو پسِ پشت یا التواء میں ڈالے جانے اور شخصی آزادیوں کو کچلے جانا شامل ہیں۔آزاد عدلیہ اِن من مانیوں کی راہ میں آڑے آتی ہے۔چنانچہ پہلے مرحلے میں عدلیہ کو زیرِ دام لایا جاتا ہے۔ عدلیہ کی سرکوبی کے بعد اگلے مرحلے میں سیاسی مخالفین کو انہی عدالتوں سے نااہلی، قید وبند، حتی کہ پرتشدد کاروائیوں کے ذریعے منظر نامے سے ہٹا کر پارلیمنٹ کو اپنے کاسہ لیسوں سے بھر دیاجاتا ہے۔تیسرے اور حتمی مرحلے میں غیر موثرکردی جانے اسی پارلیمنٹ کوججوں کی تعداد کو گھٹا بڑھا کر’کورٹ پیکنگ‘ اور قوانین میں رد وبدل جیسے ہتھکنڈوں کے ذریعے مزید بے اثرکئے جانے اور ’کھیل کے من پسند قوانین‘ لکھے جانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سب کے نتیجے میں حکومتیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بالآخر عوامی جواب دہی سے لا تعلق اور خود سر ہوجاتے ہیں۔ حریفوںکی خفیہ نگرانی، کردارکشی اور بلیک میلنگ معمول کی بات بن جاتی ہے۔ناموافق میڈیا ہائوسز کو دھونس دھمکیوں سے خاموش جبکہ سوشل میڈیا پرقوانین میں ردو بدل سمیت دیگر ہتھکنڈوں کے ذریعے قابو پائے جانے کی کوششیں عام ہو جاتی ہیں۔ اس سب کے بیچ بے اثر کر دی جانے والی عدلیہ خاموش بیٹھی سب تماشا دیکھتی ہے۔ جمہوری طرزِ حکومت دراصل’ چیک اور بیلنس‘کا نظام ہے۔اس نظام میںافراد نہیں بلکہ آئینی اداروں کو اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔تاہم جہاں کسی کامیاب جمہوریت کے اندرآزاد اور خود مختار آئینی اداروں کی موجودگی لازم ہے، وہیں اداروں کو تفویض کی گئی طاقت اوربالادستی ایک دوسرے کو ڈرانے دھمکانے کے لئے نہیں ہوتی۔چنانچہ بتایا جاتا ہے کسی بھی ریاست میں جمہوری نظام کی بقاء سیاست دانوں کے مابین باہم برداشت اور ادارہ جاتی تحمل پر مبنی جمہوری رویوں میں ہی پنہاں ہے۔ انہی مضامین میں یہ بات تکرار کے ساتھ لکھی جاتی رہی ہے کہ باہم مسائل کا حل طاقتورسمجھے جانے والے اداروں کے پر کاٹ کر انہیں کمزور کئے جانے میں نہیں بلکہ دیگر اداروں کو مضبوط بنانے میں ہے۔اب اگر کہا جائے کہ وطنِ عزیز آئین پر عملداری کے باب میںاپنی مختصر تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے تو کیا یہ کوئی غلط بات ہوگی؟ نازک موڑ سے تو ہم ہر دور میں ہی گزرتے رہے ہیں، تاہم سیاسی بے یقینی، بقاء کی کشمکش اور ادارہ جاتی مخاصمت کی جس صورتِ حال کا ہمیں آج سامنا ہے،کیا ایسا پہلے کبھی ہوا تھا؟ عام تصور کے برعکس، کسی بھی جمہوری کہلائی جانے والی ریاست میں آئین کے تحفظ کی ذمہ داری صرف عدلیہ پر نہیں ، بلکہ تمام سیاسی جماعتوں اور منظم شہری گروہوں پر عائد ہوتی ہے۔بد قسمتی سے وطنِ عزیز میں سیاسی پولرائیزیشن اس وقت اس قدر انتہا پر ہے کہ آس پاس شاید ہی کوئی ایسا مردِ قلندر موجود ہو جو خود کو محاذآرائی اور نفرت کے شعلوں کی تپش سے محفوظ قرار دینے میں حق بجانب ہو۔ سیاسی جماعتوں کی بات اور ہے، سرِ دست تو قومی ادارے کہ جن کی غیر جانبداری کسی بھی شک و شبے سے بالاتر ہونی چاہیئے، خود بقاء اور غلبے کی کش مکش میں آستینیں چڑھائے باہم صف آراء دکھائی دیتے ہیں۔ صورتِ احوال یہ ہے کہ پارلیمانی جمہوریت جن تین خود مختارآئینی ستونوں پر استوارسمجھی جاتی ہے، ان میں سے ایک اہم ستون یعنی انتظامیہ، دوسرے اہم ستون یعنی عدلیہ کو کمزور کرنے کے لئے تیسرے اہم ستون یعنی پارلیمنٹ کو بے دریغ بروئے کار لا نے پرتلا ہے۔ آئین میں کی گئی حالیہ ترمیم کے لئے پہلی کوشش جس انداز میں ہوئی اب ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ دوسری کوشش کی کامیابی میں خود سابق چیف جسٹس کیسے استعمال ہوئے، اب کسی سے چھپا نہیں۔ ملکی تاریخ کے دامن پر لگنے والے یہ وہ بدنما داغ ہیں جو لیڈی میکبتھ کی ہتھیلی پر لگے خون کے دھبے کی طرح بہت سے ہاتھوں پر سے ہزار کوششوں کے باوجودچھٹائے نہ چھٹیں گے۔ حالیہ دنوں میں متعدد اخبارات و جرائد میںدرجنوںغیر جانبدار قانون دانوںکے لکھے بیسیوں مضامین پڑھنے کو ملے۔متعدد کو اس موضوع پر بولتے سنا گیا۔ جزئیات میں اختلافات اپنی جگہ، چندحکومتی ہمدردوں کے سوا، ملک کے کم وبیش تمام تربڑے قانونی اذہان اس ایک نکتے پر متفق ہیں کہ چھبیسویں آئینی ترمیم نے آئین کے بنیادی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ انصاف کے سیکٹر اور میڈیا میں حکمرانوں کے کاسہ لیسوں کے سوا، ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ حالیہ ترمیم کا کلیدی مقصد ناموافق سمجھی جانے والی شخصیت کو چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالے جانے سے روکنا تھا۔سب جانتے ہیں کہ ترمیم کے نتیجے میںآزاد عدلیہ کاہی نہیں ، خود پارلیمانی جمہوریت کا وجود خطرے میںپڑچکا ہے۔بدقسمتی سے گروہی تعصبات اور بقاء کی دائمی خواہش نے مگر بیشتر آنکھوں پر پٹیاں باندھ رکھی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی بات اور ہے، افسوس مگر اس بات پر ہے کہ اکثرمنظم شہری گروہ بھی اس باب میں اپنے اپنے گروہی مفادات کے اسیر دکھائی دے رہے ہیں۔ خود کو ’ جمہوریت پسند ‘ کہلانے والے نام نہادلبرلزاور مغرب زدہ سول سوسائٹی سے وابستہ’ دانشور ‘مبہم بیانات سے پانیوں کو مزیدگدلا رہے ہیں۔مذکورہ آئینی ترمیم کو منظور کروانے کے لئے زیرِ زمین اور سرِ عام سرگرمیاں مہینہ بھر جاری رہیں۔ وکلاء مزاحمت کا اعلان ہی کرتے رہے۔ سپریم کورٹ بار کے انتخابات کے نتائج نے تو وکلاء برادری میں تقسیم کے پہلو کو طشت ازبام کردیا ہے۔جس حکومت نواز گروہ نے بار کی صدارت جیتی، اس کا تعلق آئین کی بالا دستی اور انسانی حقوق کی چیمپئن عاصمہ جہانگیر سے ہے۔ فاتح گروہ کے ایک سرکردہ رہنماء نے نتائج کا اعلان ہوتے ہی کہا،’ پارلیمنٹ قانون سازی میں مکمل با اختیار ہے‘۔دوسری طرف حکومتی مراعات کی بارش اور اعلیٰ عدلیہ میںپچاس کے قریب ججوں کی خالی آسامیاں پُر کئے جانے کی سرگوشیاں عام ہیں۔ان خبروں میں اگر رتی بھر صداقت بھی پائی جاتی ہو تو وقتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دیئے جانے کی یہ ایک اورناقابلِ رشک مثال کے سوا کچھ نہیں۔ اس امر سے قطع نظر کہ کس ملک میں کونسا طرزِ حکومت رائج ہو،تاریخ یہ طے کر چکی ہے کہ وہی قومیں کامیابی کی منازل طے کرتی ہیں کہ جن کے ہاں محدود گروہی مفادات کی نگہبانی کرنے والا بندوبست نہیں، بلکہ خود مختار اوروسیع البنیاد قومی اداروں پر استوارمتوازن و مربوط نظام کار فرما ہوتا ہے۔
50