"میں نے بس میں برابر کی سیٹ پر بیٹھی ایک خاتون سے پوچھا، کیا میں اس پرفیوم کا نام پوچھ سکتا ہوں جو آپ نے لگایا ہوا ہے ؟ میں اپنی بیوی کو تحفے میں دینا چاہتا ہوں۔ خاتون نے جواب دیا، آپ یہ پرفیوم اپنی بیوی کو مت دیجیئے گا ورنہ کسی بھی ذلیل آدمی کو ان سے بات کرنے کا موقع مل جائے گا۔" دل کو گدگدانے اور اداس چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنے والی منفرد مزاح نگاری کے خالق مشتاق احمد یوسفی کے اس جملے نے یقیناً آپ کے دل کو بھی گدگدایا ہو گا۔ طنز و مزاح سے بھرپور اس طرح کے لاتعداد جملے ان کے تخلیق کردہ ہیں اور ان کا یہی منفرد انداز بیاں انہیں دیگر مزاح نگاروں سے الگ مقام پر لا کھڑا کرتا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی کا نام اردو ادب کے مایہ ناز، منفرد، مشہور اور مقبول ترین طنزیہ اور مزاحیہ ادیب کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ان کا جنم 4 ستمبر 1923ء کو بھارتی ریاست راجستھان کے شہر ٹونک میں ہوا۔ اپنے والد کی طرف سے وہ "یوسفزئی قبیلے" کے پشتون جبکہ اپنی والدہ کی طرف سے "راٹھور قبیلے" کے راجپوت تھے۔ ان کے والد عبدالکریم خان یوسفی "جے پور میونسپلٹی" کے چیئرمین اور بعد ازاں "جے پور قانون ساز اسمبلی" کے اسپیکر رہے۔ یوسفی صاحب نے اپنی ابتدائی تعلیم راجپوتانہ میں مکمل کی اور "آگرہ یونیورسٹی" سے بی۔اے جبکہ "علی گڑھ مسلم یونیورسٹی" سے ایم۔اے (فلسفہ) اور ایل۔ایل۔بی کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں، قیام پاکستان کے بعد اپنے خاندان سمیت کراچی میں آ بسے۔ پیشے کے لحاظ سے بینکر تھے۔ 1950ء میں "مسلم کمرشل بینک" میں شمولیت اختیار کی اور ڈپٹی جنرل منیجر بنے۔ 1965ء میں "الائیڈ بینک لمیٹڈ" میں بطور منیجنگ ڈائریکٹر شمولیت اختیار کی۔ 1974 میں "یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ" کے صدر بنے اور 1977 میں "پاکستان بینکنگ کونسل" کے چیئرمین بن گئے۔ بینکنگ میں نمایاں خدمات پر انہیں "قائداعظم میموریل میڈل" سے نوازا گیا۔ یوسفی صاحب کا ادبی سفر 1955ء میں ایک تحریر "صنفِ لاغر" سے شروع ہوا جو لاہور سے شائع ہونے والے رسالے"سویرا" کی زینت بنی اور پھر مختلف رسائل میں ان کے مضامین کی اشاعت کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ 1961ء میں مختلف انشائیوں اور مضامین پر مبنی ان کی پہلی تصنیف "چراغ تلے" شائع ہوئی۔ بعد ازاں، ان کے چار مزید مجموعہ ہائے مضامین شائع ہوئے، جن میں "خاکم بدہن (1969ء)"، "زرگزشت (1976ء)"، "آبِ گُم (1990ء)" اور "شامِ شعرِ یاراں (2014ء)" شامل ہیں۔ ان تمام تصانیف میں قارئین کرام کو زبان کی چاشنی کے ساتھ گدگداتے جملوں اور منفرد لب و لہجہ میں طنز و مزاح کا ایک عجیب لطف ملتا ہے، جو صرف یوسفی صاحب کا ہی خاصہ رہا ہے۔ میں 20 جون کو یوسفی صاحب کی چھٹی برسی کے موقع پر ان کے اقوال پر مشتمل ایک کتاب "اقوالِ یوسفی اور دیگر مضامین" کا مطالعہ کر رہا تھا۔ یہ کتاب ڈاکٹر مظہر احمد صاحب نے ترتیب دی ہے۔ یوسفی صاحب پر تصنیف شدہ لاتعداد کتابوں کی طرح یہ کتاب بھی یوسفی صاحب کی شخصیت بطور مزاح نگار بڑے اچھے طریقے سے بیان کرتی نظر آئی اور خصوصاً ان کی برسی کے موقع پر لطف دوبالا ہو گیا۔ تقریباً ہر قسم کے شعبہ ہائے زندگی کے متعلق طنز و مزاح پر مشتمل ان کے اقوال موجود ہیں، تاہم قارئین کرام کے دلوں کو زیادہ تر گدگدانے والے ان کے وہ اقوال ہیں، جو انہوں نے خواتین یا بیگمات کے حوالے سے تحریر کیئے ہیں۔ مثال کے طور پر، "بیوی سے عشقیہ گفتگو کرنا ایسا ہی ہے، جیسے انسان خارش وہاں کرے جہاں نہ ہو رہی ہو۔" ایک اور جگہ لکھتے ہیں، "جب بھی کسی خوبصورت خاتون کے بارے میں یہ سنتا ہوں کہ وہ پارسا بھی ہے، نہ جانے کیوں دل بیٹھ سا جاتا ہے۔" مزید لکھا کہ، "عورتوں کے معاملے میں عامل حضرات ڈاکٹروں سے زیادہ چالاک ہوتے ہیں۔ دل جیتنے کیلئے ان کا یہ ایک جملہ ہی کافی ہوتا ہے کہ 'آپ کو نظر لگی ہے'۔" اسی طرح ایک اور جگہ راقم طراز ہیں کہ، "کسی نے مرزا صاحب سے پوچھا کہ محبت شادی سے پہلے ہونی چاہیئے یا شادی کے بعد ؟ مرزا صاحب نے ارشاد فرمایا، اس بات سےکوئی فرق نہیں پڑتا کہ محبت شادی سے پہلے ہو یا بعد میں، بس بیوی کو اس کی ہوا بھی نہیں لگنی چاہیئے۔" ایک جگہ اپنی بیگم کے بارے میں لکھا کہ، "میں نے اپنی بیگم کو پورا یورپ گھمایا لیکن مری کی جو سیر اس کے ابا نے کروائی تھی، اس کا ریکارڈ نہ ٹوٹ سکا۔" ایک مرتبہ اپنی بیگم کی تعریف کچھ اس انداز سے کی، "میری بیوی میری طاقت ہے، جبکہ باقی سب خواتین میری کمزوری ہیں۔" علاوہ ازیں، اکثر کہتے تھے کہ، "ڈاکٹر کی دعا اور بیوی کی چپ کبھی بھی اچھا شگون نہیں رہا۔" یوسفی صاحب نے مرد حضرات پر بھی طنز و مزاح کے نشتر برسائے۔ ایک جگہ لکھا کہ، "بعض مردوں کو عشق میں محض اسلیئے صدمے اور ذلتیں اٹھانی پڑتی ہیں کہ 'محبت اندھی ہوتی ہے' کا مطلب وہ یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ عورت بھی اندھی ہوتی ہے۔" ایک اور جگہ لکھا کہ، "مرد حضرات کے بارے میں قبرصی کہاوت ہے کہ 'جب تک لومڑ کے منہ میں ایک بھی دانت ہے، وہ پارسا نہیں ہو سکتا'۔" مزید لکھتے ہیں کہ، "مصائب تو مرد بھی جیسے، تیسے برداشت کر لیتے ہیں، مگر عورتیں اس لحاظ سے قابل ستائش ہیں کہ انہیں مصائب کے ساتھ ساتھ مردوں کو بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔" ایک مرتبہ کہنے لگے، "محبت اندھی ہوتی ہے، چنانچہ عورت کیلئے خوبصورت ہونا ضروری نہیں، بس مرد کا نابینا ہونا کافی ہے۔" ان کا ماننا تھا کہ، "مرد کی آنکھ اور عورت کی زبان کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے۔" مزید لکھتے ہیں کہ، "مرزا کہنے لگے، یوسفی بتاؤ، عورت کی کشش اور زمین کی کشش میں کیا فرق ہے ؟ عرض کیا، کوئی خاص فرق نہیں، دونوں ہی خاک میں ملا دیتی ہیں۔" قارئین کرام، اردو ادب میں مشتاق احمد یوسفی کی اہمیت اور مقام کا اندازہ آپ اس سے لگا لیں کہ ابن انشاؔء، جو بذات خود اردو ادب میں طنز نگار اور مزاح نگار کی حیثیت سے ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں، انہوں نے یوسفی صاحب کے بارے میں لکھا کہ، "اگر ہم اپنے زمانے کے ادبی مزاح کو کوئی نام دے سکیں، تو ذہن میں صرف 'یوسفی' کا ہی نام آتا ہے۔" ایک اور اسکالر ڈاکٹر ظہیر فتح پوری نے لکھا، "میں بلا تامل یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہم اردو ادبی مزاح کے 'یوسفی دور' میں جی رہے ہیں۔" علاوہ ازیں، 2014ء میں یوسفی صاحب کی پانچویں کتاب "شامِ شعرِ یاراں" کی رونمائی کی تقریب کراچی کے "آرٹس کونسل آف پاکستان" میں منعقد ہوئی، جس میں معروف مصنفہ زہرہ نگاہ نے ان کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس انداز سے کیا، "یوسفی صاحب اردو ادب کا ناقابل زوال سرمایہ ہیں۔ میں وثوق سے کہتی ہوں کہ نہ تو یوسفی صاحب اور نہ ہی ان کی کوئی کتاب کبھی پرانی ہو گی۔" اسی طرح اشفاق احمد ورک صاحب نے یوسفی صاحب کے بارے میں لکھا، "یوسفی کی تحاریر نے قارئین کو ایسا نشہ فراہم کیا ہے کہ جو شخص ان کی تحاریر کو سمجھ کے پڑھ لے یا پھر پڑھ کر سمجھ لے، اس کا دل کسی اور مصنف کے مزاحیہ تحاریر میں لگتا ہی نہیں۔ لوگ ان کی کتابیں اتنی بے دردی سے خریدتے اور بیچتے ہیں کہ دوسرے لکھنے والوں کی حق تلفی ہوتی ہے۔" یوسفی صاحب کے ہم عصر شعراء اور ادیب بھی ان کی لاجواب مزاح نگاری کے مداح تھے۔ ایک مرتبہ جون ایلیاؔ نے مشتاق احمد یوسفی سے ازراہ مذاق کہا، "حضرت پریشان ہوں، فقیری کا یہ عالم ہو گیا ہے کہ میرے پاس 32 کُرتے ہو گئے ہیں لیکن پاجامہ فقط ایک ہی بچا ہے۔" یہ سن کر یوسفی صاحب برجستہ بولے، "حضور، اس ایک پاجامے سے بھی نجات پا لیجیئے، کم از کم ایک طرف سے تو یکسانیت ہو گی۔" معاشرتی معاملات پر طنز و مزاح کرنے میں تو یوسفی صاحب اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ، "آسمان کی چیل، چوکھٹ کی کیل اور کورٹ کے وکیل سے اللہ بچائے، یہ ننگا کر کے ہی چھوڑتے ہیں۔" ایک مرتبہ کہنے لگے، "ہم نے کچھ عرصے سے یہ اصول بنا لیا ہے کہ کسی انسان کو حقارت کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہیئے۔ اسلیئے کہ ہم نے دیکھا کہ جس کسی کو بھی ہم نے حقیر سمجھا، وہ فوراً ترقی کر گیا۔" مزید راقم طراز ہیں کہ، "آدمی ایک بار پروفیسر ہو جائے تو پھر عمر بھر پروفیسر ہی رہتا ہے، خواہ بعد میں سمجھداری کی باتیں ہی کیوں نہ کرنے لگے۔" ایک جگہ کچھ یوں گویا ہوئے، "سیاست یا سائیکل پر آپ کسی بھی سمت نکل جائیں، آپ کو ہوا ہمیشہ مخالف ہی ملے گی۔" چونکہ پیشے کے لحاظ سے بینکر تھے، اسلیئے بینکنگ کے شعبے پر بھی "حملہ آور" ہوئے۔ کہنے لگے کہ، "اگر کوئی شخص یہ ثابت کر دے کہ اس کے پاس اتنی جائیداد اور سرمایہ ہے کہ اسے قرض کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں، تو بنک اسے قرض دینے پر رضا مند ہو جاتا ہے۔" مشتاق احمد یوسفی طویل علالت کے بعد 20 جون 2018ء کو کراچی میں انتقال کر گئے اور اپنے لاکھوں مداحوں کو سوگوار چھوڑ گئے۔ اردو ادب میں نمایاں خدمات پر حکومت پاکستان نے انہیں 1999ء میں "ستارہ امتیاز" جبکہ 2002ء میں "ہلال امتیاز" سے نوازا۔ وہ ہم میں نہیں رہے، تاہم اردو ادب کے فلک پر وہ ایک تابندہ ستارے کی مانند ہمیشہ جگمگاتے رہیں گے۔
479