291

بندوقچیے، انوکھی منطقیں و قانون سازیاں

 

ایک وقت تھا کہ لکڑی کے چھوٹے سے تختے کے ساتھ چند غبارے باندھے افراد چھوٹے، بڑے شہروں اور میلوں ٹھیلوں میں اکثر نظر آیا کرتے تھے، لوگ ان سے ایئر گن لے کر پیسوں کے عوض نشانہ بازی کا شوق پورا کرتے تھے۔ آج بھی اگر ہم مری جائیں تو وہاں کسی نہ کسی شاہراہ پر ایسے افراد لوگوں کو نشانہ بازی کرواتے نظر آئیں گے۔

 

اس دور میں تیتر، بٹیر اور تلیّر وغیرہ جیسے خوبصورت اور نایاب پرندے کثرت سے پائے جاتے تھے لیکن بندوقچیوں نے ہر چیز کا صفایا کر دیا اور رہی سہی کسر چھروں والی ایئر گن کے ایک نئے ورژن ''پری چارجڈ نیئومیٹک ایئرگن" جسے عرف عام میں پی سی پی ایئرگن کہتے ہیں نے نکال دی اور یہ بندوق بندوقچیوں کے پرندوں کے قتل کی مہم میں مزید جدت اور تیزی لائی۔

 

پاکستان میں ایئر گن کو کسی کھلونے سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی تھی لیکن بدلتے وقت کے ساتھ ایئر گن کی بھی جدید ترین قسمیں مقامی مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ آج کی ایئر گن سے غبارہ پھاڑنے سے لے کے پرندوں اور جانوروں کو مارنے تک کا کام لیا جا رہا ہے۔ 

 

اس ائیر گن کی خطرناک بات یہ ہے کہ اس کی آواز نہیں آتی یعنی جب اسے چلایا جاتا ہے تو یہ بے آواز ہوتی ہے اور باقی پرندے خطرے کو نہیں بھانپ پاتے اور اطمینان سے بیٹھے رہتے ہیں جس سے بندوقچیوں کے لئے پرندوں کو بڑے پیمانے پر شکار کرنا آسان ہو جاتا ہے ہوتا ہے۔

 

اسلحہ لائسنس پر پابندی کی وجہ سے پاکستان میں ایئر گن کلچر  میں تیزی آئی اور پابندی کی وجہ سے اسلحہ ڈیلروں کو اپنا کاروبار ٹھپ ہوتا نظر آیا۔ اس لیے انہوں نے وسیع بنیادوں پر ایئر گنز کی پاکستان میں درآمد شروع کر دی اور اسے آتشی اسلحے کے نعم البدل کے طور پر متعارف کرایا تا کہ شکاریوں کا کام چلتا رہے۔

 

ایف پی ایس کو بنیاد بنا کر قانون سازی کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کینیڈا میں کوئی شخص ایئر گن رکھنا چاہتا ہے تو وہ بغیر لائسنس صرف پانچ سو ایف پی ایس تک کی ایئر گن رکھ سکتا ہے۔ اس سے زیادہ ایف پی ایس کی ایئر گن رکھنے کے لیے کینیڈین شہری کے لئے حکومتی لائسنس لینا لازمی ہے لیکن بد قسمتی سے ہمارے ملک میں اس حوالے سے ابھی تک کوئی قانون سازی نہیں کی جا سکی جس کی وجہ سے پاکستان میں ایک ہزار سے بارہ سو ایف پی ایس تک کی جدید پی سی پی ایئر گنز کا آزادانہ استعمال کر کے جنگلی حیات کو نا قابلِ تلافی نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔

 

محکمہ وائلڈ لائف کے مطابق صوبہ پنجاب میں غیر قانونی شکار سب سے زیادہ سالٹ ریجن یعنی چکوال، کلرکہار اور وادی سون کے علاقوں میں ہوتا ہے جب کہ دوسرے نمبر پر سرحدی علاقوں میں اور تیسرے نمبر پر صحرائی علاقوں میں ہوتا ہے۔

 

اس حوالے سے ملکِ خدادا پاکستان میں کچھ عجیب منطقیں اور قانون سازیاں ملاحظہ فرمائیں۔

 

2016 میں پاکستانی سپریم کورٹ نے اپنے ہی فیصلے کے خلاف درخواستوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے کثرت رائے سے نایاب پرندے تلیّر کے شکار پر عائد پابندی ختم کر دی تھی اس مقدمے کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے تلیّر کے شکار کو پاکستان کی خارجہ پالیسی کا حصہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ تلور کے شکار سے پاکستان کے ساتھ عرب ممالک کی خیر سگالی میں اضافہ ہوتا ہے 

ان عدالتی اور حکومتی بیانات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ عدالتی انصاف نہیں بلکہ عربی اور قطری شہزادوں کی خواہش کا احترام تھا اور نایاب چیزوں کو مارنے سے خیر سگالی میں اضافہ کی منطق بھی ہمیں ملکِ خدادا پاکستان میں ہی سننے کو مل سکتی ہے۔ عدالت کو مزید آگاہ کیا گیا تھا کہ " تلیّر کو پاکستان میں معدوم ہونے کا خطرہ نہیں ہے۔" کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ پاکستانی تلیّر کا شکار کریں تو تلیّر کے ناپید ہونے کا خطرہ ہے جبکہ اسی پرندے کا شہزادے قتلِ عام کریں تو معدوم ہونے کا کوئی خطرہ نہیں۔

 

اگر ہم ایک اور نایاب و نفیس و خوبصورت پرندے تیتر کا تذكرہ کریں تو اسکے لائسنس پر پچھلے تقریباً 18 سال پر پابندی عائد ہے اور اس پابندی کی عجیب منطق یہ ہے کہ اس کا مقصد تیتر کی نسل کو معدوم ہونے سے بچانا ہے جبکہ اس کے بر عکس شکاریوں کے خلاف اقدامات کا معیار یہ ہے کہ تیتر کے شکاریوں کے لیے ہر سال مختلف دن اور مہینے مختص کر دیے جاتے ہیں جن میں وہ تیتروں کے پرخچے اڑانے میں آزاد ہیں۔

 

تیتر کے محافظوں پر پابندی عائد کرنا اور شکاروں کے لئے ان کے شکار کے یوم مختص کرنا ایک افسوسناک اور نا انصافی پر مبنی اقدام ہے۔

 

پرندوں کے شائقین کا مقصد فقط ان سے محبت اور اسکی نسل کا تحفظ ہے جبکہ اس کے بر عکس وہ لوگ جو پرندوں کی نسل تیزی سے ختم کرنے کی کوشش میں مگن ہیں ان کے خلاف حکومتِ وقت یا محکمہ وائلڈ لائف کوئی فیصلہ کُن یا قابلِ ذکر اقدام کرنے سے قاصر ہے۔

 

قانون کی پابندی کے پیچھے اصل روح اس کا سختی سے بلا تخصیص نفاذ ہے وگرنہ انسان بنیادی طور پر اندر سے قانون شکن ہی ہے اگر قوانین پر عمل نہیں کروانا تو جنابِ والا...! محض صفحے کالے کرنے کے تکلف کی کیا ضرورت؟

 

میری محکمہ وائلڈ لائف اور حکومتِ پنجاب سے اپیل ہے کہ انصاف کے تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے تیتر کو شوق سے پالنے والے محفظوں کو لائسنس جاری کیے جائیں اور انہیں بندوقچیوں پر فوقیت دی جائے۔ 

 

بشکریہ اردو کالمز