نیا پاکستان بھی جدید دنیا کے ساتھ ساتھ خود کو جدید کرنے کی پوری کوشش کر رہا ہے موجودہ دور کو ہم ڈیجیٹل دور کہہ سکتے ہیں کیونکہ اس دور میں ہر بندہ ہی سوشل میڈیا سے باخوبی واقف ہے سوشل میڈیا کا پاکستان میں تو یہ حال ہے کہ پاکستان کی کل آبادی سے تقریبا 3 گنا زائد لوگوں کے فیس بک اکاؤنٹ موجود ہے جس سے ہمارے لوگوں کا فیس بک اور سوشل میڈیا سے پیار کس حد تک ہے اس بات کا اندازہ آپ لگا سکتے ہیں فیس بک پاکستان صارفین کی تعداد اکتیس کروڑ سے بھی تجاوز کر گئی ہیں یعنی کہ نوجوانوں کی تعداد کے لحاظ سے حساب لگا جاے تو تقریبا 3 اکاؤنٹ ہر نوجوان کے حصے میں آتے ہیں لیکن پاکستان میں فیس بک استعمال کرنے والوں میں ایک بڑی تعداد ان پڑھ لوگوں کی بھی ہے جس میں بیشتر ریڑھی بان، مزدور طبقہ بھی شامل ہے جو فیس بک کے استعمال سے بے حد واقف ہے خیر چھوڑیں سوشل میڈیا ہمارے معاشرے کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے شاید جس کے بغیر اب گُزارا مشکل ہی لگتا ہے کیونکہ اس کی جڑیں اس حد تک گہرائی میں چلی جا چکی ہیں جس کو کھینچ کر نکالنا بظاہر نا ممکن ہی لگتا ہے اور ہماری اگلی نسل اس کی چھاوں میں ہمیشہ کھڑی ہوتی نظر آ رہی ہے
پاکستان میں تعلیم کا مسئلہ شروع دن سے ہی سنگین مسئلہ رہا ہے اور پچھلے ستر سالوں میں اس کی بہتری کے لئے کوئی خاطر خواہ انتظامات نہیں کیے گئے ہمارے تعلیمی نظام میں لاتعداد خامیاں ہیں شاید اسی وجہ سے ہم دنیا کی دوسری اقوام سے سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں پاکستان میں پڑھ لکھے افراد کی تعداد تقریبا %60 تھی جو کہ اس سال کم ہو کر %58 رہ گئی ہے لہذا اس بات سے ہم نئی حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ لگا سکتے ہیں لیکن بدقسمتی سے یہ %58 افراد وہ نہیں ہے جو کہ ہائیر ایجوکیشن لیول کی تعلیم حاصل کر چکے ہیں بلکہ ان میں وہ تمام افراد شمار کیے جاتے ہیں جو کہ صرف اپنا نام صحیح طریقے سے لکھ سکیں کمزور تعلیمی اور مہنگے تعلیمی نظام کی وجہ سے اب تو میڑک تک تعلیم دلوانا بھی مشکل ہو رہا ہے اور سکولوں کی حالت زر ایسی ہے کہ جنہیں دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ یہ تعلیمی ادارے ہیں
پاکستان کا کمزور نظام تعلیم ہونے اور ملک میں ان پڑھ کی کثیر تعداد ہونے کے باوجود حکومت کی طرف سے ہر معاملے کو ڈیجیٹلی دیکھا جا رہا ہے اور ہر معاملے کو حل کرنے کے لئے آے روز ایک نئی ایپلیکشن متعارف کروا دی جاتی ہے تاکہ عوام الناس ڈیجیٹل ذرائع استعمال کر کے اپنے مسائل حکومت کے ایوانوں تک پہنچائیں لیکن شاید حکومت اس بات سے ناواقف ہے کہ وہ ایک ترقی پذیر ملک میں حکومت کر رہی ہے جہاں کی آدھی آبادی تقریبا تعلیم سے محروم ہے اور باقی آدھی آبادی کو جو تعلیم دی جا رہی ہے نہ تو اُس کا سر ہے اور نہ پاؤں
طلبا کے داخلہ فارم سے لے کر آئی ڈی کارڈ تک موبائل فون کی وائیرفکیشن سے لے تھانے کی ایف آئی آر تک بجلی کے بلوں سے لے کر زمین کی رجسٹری تک اس کے علاوہ فصلوں کی معلومات کے لئے کسانوں کو انڈروئڈ فون، سرکاری ملازمین کی شکایت کے لئے پاکستان سٹیزن پورٹل اشیاء خوردونوش کی قیمتوں کے لئے قیمت ایپ، لاتعداد شکایات سیل، بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام، بنکوں کا نظام، سرکاری محکموں کی اپیلیکش، خریداری کا نظام کمپیوٹرائز غرض ہمارے ملک میں تو اب دینگی مچھر بھی ہر دن کمپیوٹر اور موبائل ایپلیکشن کے ذرائع ختم کر دیا جاتا ہے یوں کہہ سکتے ہیں حکومت سے جس حد تک ممکن ہو سکا ان کی طرف سے ڈیجیٹلی نظام متعارف کروا دیا گیا لیکن شاید حکومت وقت کو معلوم نہیں کہ جس پاکستان میں وہ حکومت کر رہے ہیں وہاں کا مزدور پانچ سو کی دیہاڑی میں بال بچوں کا پیٹ پال رہا ہے جس کے پاس ہزاروں روپے مالیت کا موبائل نہیں ہے جہاں اگر وہ کسی سرکاری محکمے میں افسران کے کسی نارواسلوک کا شکار ہوتا ہے تو پاکستان کا تعلیمی نظام جس کی وجہ سے وہ پڑھ نہیں سکا اس قابل نہیں ہے کہ گوگل پر پاکستان سٹیزن پورٹل کی اپیلیکشن کو ڈاؤنلوڈ کر کے وہاں اپنی شکایت درج کرواے اور پھر کچھ دن بعد افسران کی طرف سے انگلش میں ایک لمبے اور چوڑے پیغام کو سمجھ سکے اور نہ ہی اُس شخص جو کہ روزانہ اپنی پانچ سو کی دیہاڑی میں جس میں سے وہ 100 کی لکڑیاں 85 کا دودھ آٹا، چینی، گھی، لے کر جاے اور دوکاندار کے خلاف قیمت ایپ ڈاؤنلوڈ کر کے حکومت وقت کو آگاہ کرے کہ فلاں دوکاندار نے اُسے سے آدھا کلو چینی میں کچھ پیسے زائد لئیے ہیں پاکستان ضرور ترقی کرے بلکہ دن رات ترقی کرے اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں کھڑا ہو لیکن ایک ترقی پذیر ملک میں اس طرح کا نظام رائج کر کے لوگوں کی حق تلفی کرنا ہی مقصود ہو سکتا ہے اور اُن کے اندر احساس محرومی پیدا کرنا ہی ہو سکتا ہے جہاں نظام کی سختی اور مشکلات انہیں آواز اُٹھانا پر ہی رضامند نہ ہونے دیں لہذا ان تمام معاملات کو انہتائی سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے