میڈیا بحران  ذمہ دار کون

پاکستانی کی میڈیا انڈسٹری نے جس رٖفتار کے ساتھ ترقی کی تھی شاید اُس رفتار سے کہی گنا زیادہ تیزی کے ساتھ زوال پذیر ہو رہی ہے جس کی بنیادی وجہ موجودہ میڈیا انڈسٹری میں پیدا ہونے والا بحران ہے جس کی زد میں نہ صرف چھوٹے میڈیا ہاوس آے ہیں بلکہ بعض بڑے میڈیا ہاوس بھی متاثر ہوے ہیں جس کی وجہ سے میڈیا ہاوس سے وابستہ سینکڑوں لوگ متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے روزگار سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں میڈیا انڈسٹری میں پیدا ہونے والا یہ بحران روز بروز شدت اختیار کر رہا ہے جس سے نہ صرف میڈیا ہاوسز میں کام کرنے والے افراد خوف زدہ ہے بلکہ صحافت سے تعلق رکھنے والے ہزاروں طالب علم کو بھی اپنے مستقبل کی فکر لاحق ہو گئی ہے۔۔۔
پاکستان میں میڈیا جس حد تک آزاد ہے شاید ہی دنیا کہ کسی ملک میں میڈیا کو اتنی آزادی حاصل ہو اور میڈیا کے زوال کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ملک میں حد سے زیادہ میڈیا ہاوس کا قیام کیا گیا تاکہ اشرافیہ اپنے مفادات کا تحفظ کر سکے جس کی بنیادی وجہ پچھلے کہی سالوں میں درجنوں میڈیا ہاوسز کا قیام ہے اور ان میڈیا ہاوسز میں ایک بڑی تعداد ان چینلز کی بھی ہے جو کہ پیمرا سے لائسنس یافتہ ہی نہیں ہیں ایک چھوٹے ملک میں اتنی بڑی تعداد میں چینلز کا اجر ا اور اتنی بڑی میڈیا انڈسٹری کھڑی کرنا نامناسب تھا اور موجودہ وقت میں ریاست کی طرف سے اتنی بڑی اور وسیع انڈسڑی کو سہارا دینا مشکل ہی نظر آ رہا ہے جہاں ریاست خود ایک تباہ حال معیشت کے ساتھ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔۔۔


گزشتہ حکومتوں کی نسبت اس حکومت میں میڈیا بحران میں سنگینی دیکھنے کو ملتی ہیں جہاں آے روز بعض معاملات میں حکومت کی طرف سے بعض چینلز پر پابندیاں لگا دی جاتی ہیں  گزشتہ حکومتوں میں دیکھا جائے تو اشتہاروں کی مد میں اربوں روپے چینلز کو دئیے گئے لیکن موجودہ حکومت کے پہلے ایک ہی سال میں میڈیا بحران کی یہ صورتحال سوچ سے بالاتر ہے جو کہ چینل ملکان کی طرف سے ایک مصنوعی بحران کا بھی پیش خیمہ لگتی ہے لیکن اس موجودہ صورتحال میں جہاں میڈیا ہاوسز اور حکومتی ادارے ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں وہاں اس انڈسٹری سے وابستہ ہزاروں ملازمین کی امیدیں بھی ان کے رحم و کرم پر ہے


میڈیا کی معاشی بدحالی کو دور کرنے کے لئے نہ ہی ادارے کچھ کر رہے ہیں اور نہ ہی میڈیا ہاوس ملکان اور میڈیا انڈسڑی کو زوال کی طرف لیجانے میں یہ دونوں کردار برابر کردار ادا کر رہے ہیں جس سے بظاہر تو آنے والے وقت میں حالات اس سے بھی زیادہ سنگینی کی طرف جاتے نظر آ رہے ہیں اس کے علاوہ دوسری بڑی وجہ جو میڈیا کی ساخت کو نقصان پہنچانے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے وہ   اُن جعلی صحافیوں کی ہے جن کا صحافت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں اور وہ محظ ایک مائیک اور کیمرے کے بنا پر مختلف چینلز کے لوگو جن کا کوئی وجود ہی نہیں لوگوں کو بلیک میل کرنے اور پیسہ بنانے میں مصروف ہیں اور جنہوں نے صحافت جیسے مقدس پیشے کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے

تمام چھوٹے بڑے شہروں میں ان جعلی صحافیوں کی تعداد سیکنڑوں کے حساب سے ہیں جو آے روز کسی بھی فرد کے خلاف من گھڑت کہانیاں بنا کر اُن کی عزتیں نیلام کرنے میں مصروف رہتے ہیں ان کی روک تھام کے لئے  میڈیا کے اداروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس نہ تو کوئی واضح پالیسی ہے اور نہ ہی کوئی جامع قانون جس کی بدولت اُن تمام چینلز کو بند کیا جائے اور اُن پر پابندی لگائی جائے  جو پاکستان براڈکاسٹ ایجنسی یا پیمرا سے لائسنس یافتہ نہ ہو  لیکن اگر یہ حالات اسی طرح رہیں تو پھر  بظاہر یہی لگتا ہے کہ آئندہ دونوں میں حقیقی انڈسڑی کا وجود ختم ہو جاے گا اور ایک ایسی لابی اُس کی جگہ لے لی گئی جس کو شاید لگام دینا مشکل ہو جاے گا لہذا ریاست کو چاہیے کہ ان بے لگا م لوگوں کو کنٹرول کرے اور حقیقی صحافت جو کہ قانون و ضوابط کے اند ر کام کرے تاکہ میڈیا دوبارہ اپنا وہ مقام اور ساخت بحال کر سکے اور اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ چینلز پر اپنی پالیسوں کو نرم رکھیں تاکہ اس بحران سے نبٹھا جا سکے اور اس پر جلدازجلد قابو پایا جا سکے اور اُن تمام لوگوں کا روزگار پروان چڑھایا جا سکے جو کہ میڈیا انڈسٹری کا حصہ ہیں اور میڈیا بذات خود بھی  ریاست کے چوتھے ستون کی حیثیت سے اپنے کام کو جاری رکھ سکے ۔۔۔۔

بشکریہ روزنامہ آج