303

تیل کا بحران کس وجہ سے آیا ہے

تقریباً دو ماہ پہلے حکومت نے بغیر کسی تیاری کے لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا جس کی وجہ سے نا صرف معیشت اور کاروبار دھڑام سے گر گئے بلکہ تیل کی شدید بحران کی وجہ بھی بغیر کسی منصوبہ بندی اور عجلت میں کیے گئے احمقانہ فیصلے بنے۔

تیل کی کوئی بھی کمپنی اس شرط کی پابند ہے کہ وہ اوگرا سے این او سی لے اس این او سی کے ذریعے ان کمپنیوں کو اس معاہدے پر دستخط کرنا پڑتا ہے جس کی اولین شرط یہ ہے کہ کمپنی حکومت کی ہدایت کے مطابق تیل کا ذخیرہ اپنے پاس رکھنے کی پابند ہوگی لیکن لاک ڈاؤن کا اعلان ہونے کے بعد سڑکیں گاڑیوں سے خالی ہوئیں لیکن اس دوران بین الاقوامی تیل کمپنیاں جس میں شیل، ایڈمور، ہسکول اور باکری وغیرہ شامل تھیں بروقت نئی خریداری کو نظر انداز کر گئیں جس کی وجہ سے ان کا سٹاک زیرو پر آ گیا۔

اس لئے جوں ہی وزیراعظم عمران خان نے لاک ڈاؤن ختم کرنے کا اعلان کیا تو صرف حکومتی کمپنی پی ایس او کے پاس تیل کا سٹاک اور سپلائی دونوں موجود تھے جبکہ پرائیویٹ کمپنیوں کے تیل ڈپو ویران پڑے تھے لیکن اس وقت اہم سوال یہ ہے کہ مس مینیجمنٹ اور غیر ذمہ داری کا مرتکب کون ہوا اور اس بحران کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟

کیا لاک ڈاؤن کا اعلان کرنے سے پہلے اوگرا یا وزارت پٹرولیم نے وزیراعظم کو معاملے کی پیچیدگی اور آنے والے مشکلات سے آگاہ نہیں کیا تھا؟
کیا تیل کمپنیوں کو وہ معاہدے یاد دلائے گئے تھے جس کے تحت وہ تیل کا ذخیرہ رکھنے کے پابند ہیں، اگر تیل کمپنیوں نے ذخیرہ نہیں رکھا تو قانون کے تحت اوگرا ان پر بھاری جرمانہ عائد کر سکتا ہے۔
لیکن بات وہی کہ ان ”طاقتوروں“ کے خلاف ایکشن کون لے گا؟

اس وقت پی ایس او بھی شدید مسائل سے دوچار ہے کیونکہ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد جوں ہی گاڑیوں کا ریلا سڑکوں پر آیا تو صرف پی ایس او کے پاس تیل موجود تھا لیکن ڈیمانڈ اور سپلائی میں بہت بڑا فرق دیکھنے میں آیا جس کی وجہ سے سینکڑوں گاڑیاں قطاروں میں دکھائی دینے لگیں۔

ایک تجربہ کار پمپ مینیجر سے بات ہوئی تو اس نے بتایا کہ اس وقت صرف پی ایس او کے پمپ گاڑیوں کو تیل دے رہے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عام طور پر چوبیس گھنٹوں میں اٹھارہ سے بیس ہزار لیٹر کی ڈیمانڈ اور سپلائی ہوتی جو آسانی کے ساتھ ہم مینیج کرلیتے ہیں جبکہ اس وقت دوسری کمپنیوں کی سپلائی رکنے اور پٹرول پمپ بند ہونے کی وجہ سے ہماری (پی ایس او کی) ڈیمانڈ ساٹھ ہزار لیٹر پر پہنچ چکی ہے جبکہ سپلائی اسی طرح یعنی بیس ہزار لیٹر سے نہیں بڑھی جس کی وجہ سے دن بھر لوگ ہم سے لڑتے جھگڑتے ہیں اور ہم شدید سوشل مسائل کا شکار ہیں۔

ہمیں یہ بات بھی سمجھنا چاہیے کہ کم از کم اس معاملے میں پیٹرول پمپ مالکان ہرگز قصور وار نہیں کیونکہ تیل کمپنیوں نے سپلائی روک دی ہے۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ پمپ مالکان خود تیل ذخیرہ کر چکے ہیں لیکن ایسا ممکن نہیں کیونکہ محدود پیمانے پر تیل ذخیرہ کرنے سے وہ (اڑتا ) یعنی ہوا میں تحلیل ہونے لگتا ہے جس کا نقصان پمپ مالک اٹھاتا ہے۔

مختصر یہ کہ تیل کے موجودہ بحران کی تمام تر ذمہ داری حکومت اور تیل کمپنیوں پر عائد ہوتی ہے کیونکہ لاک ڈاؤن لگانے اور پھر لاک ڈاؤن کھولتے وقت اس اہم مسئلے سے صرف نظر کیوں کیا گیا کہ ویران سڑکوں پر ٹریفک کا ریلا آنے سے پہلے کیا تمام انتظامات مکمل ہیں؟

کیا وزارت پٹرولیم اور اوگرا لاک ڈاؤن اٹھانے سے پہلے آئل کمپنیوں کے ساتھ کو آرڈینیشن میں تھے یا بے خبری کی نیند سوئے ہوئے تھے؟
تیل کمپنیوں نے اس حکومتی رولز کو کیوں نظر انداز کیا جس کے تحت وہ تیل کا ذخیرہ رکھنے کے پابند ہیں اور ان کمپنیوں نے بروقت خریداری کیوں نہیں کی؟

اتنی خوفناک غیر ذمہ داری اور تباہ کن مس مینجمنٹ ہے کہ بقول عمران خان یہ برطانیہ میں ہوتا تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔
لیکن کیا کریں حکومت بھی طاقتوروں کی ہے اور تیل کمپنیاں بھی کمزور نہیں سو زیادہ سے زیادہ کسی پٹرول پمپ کے مالک کو جرمانہ ہو سکتا ہے۔
یا قطار سے نکلنے پر عوام کو چند سوٹیاں پڑ سکتی ہیں۔
کم از کم اس ملک میں تو فی الحال یہی ”مجرم“ ہیں اور یہی قانون ہے۔

بشکریہ اردو کالمز