462

ہمارے نظام کا خاصہ اورانقلاب 

مسلمان کو ہمیشہ سے یہی درس دیا جاتا ہے کہ رزق کا تو رب تعالی نے وعدہ کر رکھا ہے۔ وہ رب اپنی مخلوق کو کسی نہ کسی طرح سے رزق پہنچا ہی دیتا ہے۔ مگر ناانصافی اور ظلم کے خلاف خود لڑنا ہوگا۔ ہاں ناانصافی اور ظلم کے خلاف لڑنے پر رب تعالی تمہاری مدد ضرور کرے گا۔

پاکستان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے اور مسلمان ہونے کے ناطے اگرچہ غریب بھی کیوں نہ ہو مطمئن رہتا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے رب تعالی کہیں نہ کہیں سے رزق کا بندوبست کردے گا۔ اس لئے دو وقت کی روٹی کیلئے اس قوم میں انقلابی روح پھونکنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ اس قوم کا ضمیر جھنجھوڑنے کیلئے انہیں ناانصافی اور ظلم کے خلاف کھڑا ہونا سکھانا ہوگا۔ جس دن لوگ ناانصافی اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرکے نکلیں پڑے اس دن انہیں کوئی روک نہیں پائے گا۔ 

روٹی کیلئے نکلے تو حکومت آٹا بھیج دے گی ، وہی آٹا جو پہلے ناپید ہوچکا ہوتا ہے عوام کا آواز اٹھاتے ہی وافر مقدار میں مہیا ہوجاتا ہے۔ دو وقت کی روٹی کیلئے لڑنا بھی بھلا کیا لڑنا ہے۔ یہ تو برصغیر میں لوگ آٹے کیلئے اس قدر بیتاب ہوتے ہیں۔ جبکہ دنیا میں آج بھی ایسے بہت سے ممالک ہیں جہاں شاید کسی گھر میں روٹی پکائی جاتی ہو۔ شاید کسی کو آٹا لینے کی ضرورت درپیش آتی ہو۔ لوگ کجھوریں کھاتے ہیں ، چاول کھاتے ہیں ، دیگر پھل فروٹ کھاتے ہیں ، سادہ اور ہلکی غذا کھا کر گزارا کرتے ہیں۔ ایسے ملکوں میں بھلا روٹی کے نام پر انقلاب کیونکر آئیں گے۔ 

انقلاب ان ناانصافیوں کے خلاف آتے ہیں جو ایک طبقہ مسلسل جاری رکھتا ہے۔ انقلاب اس ظلم کے خلاف آتے ہیں جس کیلئے کسی قسم کی جسٹیفکیشن نہیں دی جاتی۔ انقلاب اس نظام کے ستائے ہوئے لوگ لاتے ہیں جو اپنی ساری زندگی ایمانداری کیساتھ گزارنا چاہتے ہیں مگر اس نظام میں موجود کالی بھیڑیں انہیں اس قدر مجبور کرتی ہیں کہ انہیں اس نظام کے خلاف اٹھنا پڑتا ہے۔

موجودہ نظام میں سچائی کی کوئی وقعت ہی نہیں ، دو کوڑی کی حیثیت بھی نہیں رہی۔ سچائی پر مبنی ایک واقعہ سناتا ہوں۔ 

ایک مرتبہ امتحان ہال میں ایک لڑکا اٹھا اور نگران سے اجازت چاہی کہ مجھے باہر جانے دیں۔ نگران نے پوچھا کیوں جانا ہے؟ اس لڑکے نے صاف کہہ دیا کہ میں نے جاکر نقل کرنی ہے۔ نگران حیران ہوگیا اور پوچھنے لگا کہ تم ہوش میں تو ہو ، تم کہہ کیا رہے ہو! لڑکے نے کہا سچ ہی تو کہہ رہا ہوں۔ اور آپ بھی جانتے ہیں یہ جتنے لڑکے واش روم جانے کے بہانے بنا کر باہر جارہے ہیں کس لئے جارہے ہیں۔ لڑکے نے مزید کہا کہ کیا آپ نہیں جانتے کہ یہ لڑکے باہر جاکر نقل کرکے آتے ہیں۔ نگران حیران رہ گیا۔ لڑکے نے پوچھا چلیں آپ بتائیں آپ کو نہیں معلوم کہ یہ لڑکے نقل کرنے جاتے ہیں؟ 

فرق صرف اتنا ہے کہ وہ جھوٹ بول کر جارہے ہیں تو انہیں خوشی خوشی سے اجازت مل رہی ہے۔ میں تو سچ بول کر جانا چاہتا ہوں۔ ایسا سچ جو آپ بھی جانتے ہیں مطلب آپ کو سب پتا ہے کہ لڑکے واش روم کا بہانہ بنا کر کہاں جاتے ہیں۔ نگران نے جو جواب دیا وہ ہمارے سارے نظام کی عکاسی کرتا ہے۔ نگران نے کہا ہاں یہ سچ ہے ہمیں بھی سب پتا ہوتا ہے کہ لڑکے کہاں جاتے ہیں۔ تم بھی واش روم کا بہانہ بنا کر چلے جاتے ناں۔ یہ کیسی عقلمندی ہے کہ سچ بول کر اجازت لینا چاہتے ہو۔ اب میں کیسے اجازت دے سکتا ہوں۔ لڑکے نے کہا سر ! سچ تو آپ بھی جانتے تھے مگر آپ پھر بھی اجازت دیتے رہے میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں نے صرف وہی معروف سچ بول دیا ہے۔ میں تو ایک غلط کام کرنے جارہا تھا مگر اس غلط کام کیلئے ایک جھوٹ بھی بول کر چلا جاوں تو یہ اس سے بھی زیادہ غلط ہوگا۔ میں نے آپ کو سچ سچ کہہ دیا ہے اب اگر آپ جانے دیتے ہیں تو میں چلا جاتا ہوں۔ نگران نے کہا سوری! اگر آپ باقی لڑکوں کی طرح بہانہ بنا کر جاتے تو میں جانے دیتا مگر اب نہیں جانے دوں گا۔

یہ حقیقی واقعہ ہے کوئی من گھڑت کہانی نہیں ہے۔ یہ کہانی اس لئے بتائی کیونکہ یہ ہمارے نظام کا عکاسی کرتی ہے۔ آپ سچائی کا راستہ اختیار کرینگے تو یہ نظام رکاوٹیں ڈالے گا۔ آپ کو مجبور کرے گا کہ جھوٹ ، دونمبری،  رشوت ، حرام خوری کا سہارا لوگے تو وہی سب کچھ آپ کو میسر آ سکتا ہے جو سچائی کے ذریعے تمہارا حق تھا۔ مگر یہ حق تم سچ پر چلنے سے ہرگز نہیں لے سکتے۔ تمہیں اگر اس نظام میں جینا ہے تو تھوڑا بہت کرپٹ بننا ہوگا۔ تھوڑا بہت جھوٹ بھی بولنا ہوگا۔ تھوڑا بہت مجرم بھی بننا ہوگا۔ یہ اس نظام کا خاصہ ہے اور جس فرد میں یہ خصوصیات نہیں ہیں وہ اس نظام میں نہیں چل سکتا۔ 

ہمارے ملک کے انقلابی دوست عوام کو دو وقت کی روٹی کے نام پر انقلاب کیلئے اٹھ کھڑا ہونے کی ترغیب دلاتے رہتے ہیں۔ کتنی بڑی بیوقوفی ہے کہ جو شخص اپنے زور و بازو پر اتنا کما سکتا ہے کہ وہ اپنے جیسے دس لوگوں کو دو وقت کی روٹی کھلا سکتا ہے وہ شخص دو وقت کی روٹی کیلئے اپنی زندگی داو پر کیونکر لگائے گا۔ جہاں تک بات دو وقت کی روٹی کی ہے تو یہ ہمیشہ سے چلتا آرہا ہے۔ جابر و ظالم پہلے سب کچھ چھین لیتے ہیں پھر لوگ جب دو وقت کی روٹی کی شکایت کرتے ہیں تو ان کے سب کچھ چھینے ہوئے سے ایک تھیلا آٹے کا دے کر اپنی سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اور وہ غریب انسان دعائیں دیتا ہوا چلا جاتا ہے کہ اس  جابر کو اللہ تعالی خوش رکھے، اسے اور بھی دے کہ جس نے مجھ پر بہت بڑا احسان کرکے مجھے ایک تھیلا آٹے کا دیا ہے۔

انقلاب کیلئے روٹی کیلئے لڑنا نہیں بلکہ ناانصافی کے خلاف لڑنا ہوگا تب انقلاب آتے ہیں۔ دو وقت کی روٹی کیلئے کبھی انقلاب نہیں آئے نہ ہی لائے جاسکتے ہیں۔ جو بھی دو وقت کی روٹی پر آواز بلند کرنے کا کہے وہ رانگ نمبر ہوگا۔ وہ حقیقی مسائل کو دبانے والا ہوگا۔

 

بشکریہ اردو کالمز