183

نفرت کا کاروبار

پاکستان کی معیشت دہائیوں سے دباؤ کا شکار ہے۔ ملک کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنے کے لیے ہمیں ناگزیر بنیادی ساختیاتی اصلاحات لانے کے لیے قدم ابھی بڑھانے ہیں اور کاروبارِ معیشت کو سمت ابھی دینی ہے۔ تاہم، وہ ہو یا نہ ہو ملک میں کاروبارِ نفرت پھل پھول رہا ہے، اور ریاست اور معاشرہ دونوں اس سے فائدہ اٹھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما میاں جاوید لطیف کے احمدی مخالف بیانات، جن کا مقصد سابق وزیراعظم عمران خان کو بدنام کرنا اور ان کے خلاف عوامی رائے کو مشتعل کرنا تھا، ایک اور یاد دہانی ہے کہ ہماری سیاسی قیادت سیاسی مفادات کے حصول لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔ ہماری سیاست میں مذہب کا استعمال کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تقریباً تمام سیاسی عناصر اس چیز کا سہارا لیتے ہیں، اس امر کی پروا کیے بغیر کہ ایسا کرنے سے ملک میں چھوٹی مذہبی برادریوں پر اور مجموعی طور پہ معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما ماضی قریب میں خود نفرت پھیلانے والوں کا نشانہ بنے ہیں۔ مثال کے طور پر، ان کے ایک وزیر کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا تھا، جبکہ دوسری شخصیت قتل کی ایک کوشش میں بال بال بچی تھی، اس سب کے پیچھے مذہب کے نام پر چلائی گئی ایک مذموم مہم تھی جس کے ذریعے لوگوں کو اْکسایا گیا تھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن اب خود آگ سے کھیلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جماعت کے رہنماؤں کی جانب سے مذہب کارڈ کا استعمال ان کی مایوسی اور فرسٹریشن کو ظاہر کرتا ہے کہ پارٹی کتنی تیزی سے سیاسی میدان میں مات کھا رہی ہے۔ شاید یہ بات دہرانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ملک میں چھوٹی مذہبی برادریاں چاہے وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم، دونوں کی حالتِ زار اور ان کے ساتھ برتے جانے والے سلوک کی خبریں مین سٹریم میڈیا اور سماجی ذرائع ابلاغ پر کثرت سے سامنے آتی رہتی ہیں۔ اس کے باوجود ریاست اور سماج دونوں اس بات کے خواہاں ہیں کہ انہیں اس طرح متعصب کے طور پر پیش نہ کیا جائے جس طرح بین الاقوامی میڈیا ہندوستان کو پیش کر رہا ہے۔ حال ہی میں سول سوسائٹی کی ایک تنظیم ’سینٹر فار سوشل جسٹس‘ کو حکام کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا، جس کا سبب یہ تھا کہ تنظیم نے اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کو جو رپورٹ پیش کی ہے ان کے مطابق وہ مبینہ طور پر ’حقائق کے منافی‘ ہے۔ ’جوائنٹ ایکشن کمیٹی برائے عوامی حقوق‘ نے اپنے دفاع میں کہا ہے کہ رپورٹ کے مندرجات زمینی سطح پر قابلِ تصدیق صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں، اور ریاستی اداروں کو پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے تھا۔ پاکستان یہ پسند نہیں کرتا کہ اس کا بھارت سے موازنہ کیا جائے۔ ایک تو اس لیے کہ وہ یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ دونوں ریاستیں مختلف ہیں اور ان کے مابین بہت کم مشترکات ہیں۔ دوسری وجہ ریاست کا یہ مقدمہ ہے کہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہونے کے ناطے بھارت سے زیادہ اپنی اقلیتوں کا تحفظ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جب کہ بھارت ایک سیکولر جمہوری ریاست ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، پاکستان میں بہت سے لوگ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ حکمران ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ ہندوتوا کے عدم برداشت پر مبنی نظریے کو فروغ دیتی ہے۔ اس سبب سے اور بعض دیگر وجوہات کی بنا پر پاکستان میں مقتدر اشرافیہ دونوں ممالک کا امیج کے لحاظ سے موازنہ کرنے کی کوئی کوشش پسند نہیں کرتی۔ پاکستان اپنی سرزمین پر ہونے والے مذہبی جبروزیادتی کے واقعات کو اس طور پیش کرتا ہے کہ یہ ’انفرادی‘ نوعیت کے ہیں اور کچھ سخت گیر عناصر اس میں ملوث ہوتے ہیں۔ بھارت میں بھی مقتدر اشرافیہ اسی طرح کا نقطہ نظر پیش کرتی ہے۔ گویا بیانیے کی تشکیل میں دونوں فریقوں میں کم از کم ایک قدر تو مشترک ہے۔ پاکستان کے اندر اور شاید ہندوستان میں بھی ایسا ہی ہے کہ نوجوانوں کے اعصاب تقسیم کے روایتی خمار سے بوجھل نہیں ہیں، لیکن باہمی سطح پہ کچھ ثقافتی اشتراکات کے باوجود جب سیاست اور آئیڈیالوجی کی بات آتی ہے تو ان کے مابین بہت کم نزدیکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں،بالکل ایسے ہی جیسے یورپی اقوام کا باہمی معاملہ ہے۔ پاکستانی نوجوانوں میں ثقافت کا تصور زیادہ تر سماجی رسوم و رواج اور مظاہر کے دائرے میں ہوتا ہے۔ ’غیر‘ اور الگ ہونے (otherness) کے عْقدے نے آہستہ آہستہ جڑ پکڑ لی ہے اور اس تناظر کے کچھ سیاسی فائدے ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، یہ سوال اکثر اٹھایا جاتا ہے کہ ہندوتوا کا عروج پاکستان پر کس طرح اثر انداز ہو رہا ہے، تو اس کا ممکنہ ترین جواب یہ ہے کہ کچھ خاص نہیں۔ اگرچہ پاکستانی نوجوان بھارت کو ایک دشمن ملک سمجھتے ہیں لیکن ساتھ ہی وہ اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ دو طرفہ مسائل بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے حل کیے جا سکتے ہیں۔ ہوسکتا ہے ایک عام پاکستانی بھارت میں مسلمانوں کی تکالیف پر دکھ محسوس کرتا ہو، لیکن وہ انہیں بہرحال ایک دوسری ریاست کا حصہ ہی سمجھتا ہے، جیسا کہ میانمار کے روہنگیا مسلمان۔ اس کے پیچھے نہ تو بھارت ہے اور نہ پاکستان کی سول سوسائٹی کے اقدامات، بلکہ یہ کج نظر سیاسی اور مذہبی رہنما ہیں جو اس ملک کا چہرہ مسخ کر رہے ہیں۔ ’ہندوستانیت‘ سے لاتعلقی کے احساس نے ’دشمن‘ کے تصور کو تو بدل دیا ہے، مگر ریاست کے نظریاتی ڈھانچے نے نفرت کو سماجی بْنت کا حصہ بنادیا ہے۔ اب، مقتدر اشرافیہ اور عام پاکستانی دونوں ہی ان عناصر سے عدم تحفظ کا احساس رکھتے ہیں جو مذہب، فرقہ، نسل یا سماجی حیثیت کے لحاظ سے ان سے مختلف نظر آتے ہیں۔ مقتدر اشرافیہ اور مذہبی طبقات کی اکثریت تقسیم کے ایسے ہی نظریات پر بنا رکھتی اور فروغ پاتی ہے۔ طبقاتی اور فرقہ وارانہ منافرت بالآخر معاشرے کے اندر ہم آہنگی کو کمزور کرتی ہے، آئینی روح کو مجروح کرتی ہے، اور مساوی شہریت کے احساس کو ختم کرتی ہے، اگرچہ بیرونی دشمن کے خوف نے متنوع مذہبی و نسلی پس منظر کے حامل لوگوں کو ان کے اجتماعی مفاد کو درپیش خطرے کے خلاف مجتمع رہنے کی سبیل بھی فراہم کر رکھی ہے۔ بڑھتی ہوئی مڈل کلاس، شہروں کی طرف ارتکاز، اور مذہبی اداروں کی توسیع جیسے امور کو اکثر بھارت اور پاکستان دونوں میں اس تبدیلی کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مقتدر اشرافیہ کا رویہ اور کردار کاروبارِ نفرت کو فروغ دینے میں سب سے زیادہ نمایاں اور مؤثر رہا ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ اپنے سیاسی مفادات حاصل کرنے کے لیے آئیڈیالوجی اور مذہب کا استعمال کرتے ہیں، جس کی قیمت یہ ہوتی ہے کہ معاشرے تقسیم ہوتے ہیں اور ان میں عدم برداشت بڑھتی ہے۔ آخرکار، وہ خود بھی اس منافرت کا نشانہ بنتے ہیں، لیکن پھر بھی اسی راستے پر گامزن رہتے ہیں، جس سے انہیں ایک قسم کی غیرفطری مسموم سی راحت ملتی ہے۔

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز