305

نیشنل ازم اور ترقی کے نئے رجحانات

ملک بھر کی شاہراہوں کے کنارے مساجد، مدارس اور دیگر چھوٹی بڑی عمارتیں نظر آنا معمول کی بات ہے۔کراچی سے طورخم، اسلام آباد سے گلگت اور پشاور سے کوٹری تک پھیلے ہوئے مختلف مذہبی ادارے ملک کے اندر مذہبی تمدن کی موجودگی کا واضح مظہر ہیں۔ ان مساجد و مدارس اور مذہبی مراکز کا طرز تعمیر ایسی مذہبی قوتوں کی موجودگی کی نشاندہی کرتاہے جو ایک طرح سے قومی ہم آہنگی پیداکرنا چاہتی ہیں۔ مذہبی اداروں کی باقاعدہ تشکیل کے عمل سے استفادہ کرنے والوں کی زیادہ تعدادکم آمدن والے طبقات سے تعلق رکھتی ہے۔ پنجاب میں یہ عمل سماجی ڈھانچے کوواضح طور پر تبدیل کر چکا ہے جب کہ سندھ میں بھی بتدریج ایسی تبدیلی آرہی ہے۔ان سب عوامل کے ساتھ ساتھ مذہبی بنیادوں پر قومی یکجہتی کا ریاستی منصوبہ بھی ایک اہم عامل کے طور پر کام کررہا ہے۔یہ منصوبہ پاکستان کی نظریاتی اساس کو مذہب کے ساتھ جوڑتے ہوئے مذہبی تشخص کوزبان و نسل سمیت باقی تمام تر شناختوں سے برتر قرار دیتاہے۔ سماج اور ریاست کو مذہبی بنیادوں پر استوار کرنے کا تاریخی عمل اسی جانب اشارہ کرتا ہے۔ قوم پرست بلوچ محقق نصیر دشتی اپنی ایک کتاب میں اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ گذشتہ چند دہائیوں میں بلوچ معاشرے میں قابلِ ذکر تبدیلی رْونما ہوئی ہے۔روایتی سماجی و قبائلی ڈھانچے تبدیل ہوئے ہیں، خانہ بدوشی ختم ہوئی ہے اور بلوچستان کے سماجی و سیاسی اْفق پر متوسط طبقے کا ظہور بھی ہوا ہے۔ اس سماجی تبدیلی کے اثرات قوم پرست قیادت پر بھی پڑے ہیں اور اب قبائلی سرداروں کی بجائے متوسط طبقے کے تعلیم یافتہ نوجوان اس میدان میں قائدانہ کردار ادا کررہے ہیں۔ روایتی مذہبی ڈھانچے، جو کبھی صرف سیاسی و سماجی رسوم و عبادات کی ادائیگی کا مرکز اور معاشرے کے قدامت پسندانہ رْخ کا عکس ہوا کرتے تھے، اب ایک حقیقی سماجی و سیاسی قوت کے طور پر سامنے آرہے ہیں۔ جمعیت علماے اسلام کے رہنما حافظ حسین احمد اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ مذہبی جماعتوں میں سے بھی مخصوص افرادہیں جو اسٹیبلشمنٹ کے لیے پسندیدہ ہیں، تاہم ابھی بھی اسٹیبلشمنٹ قبائلی سرداروں پر زیادہ اعتماد کرتی ہے کیوں کہ وہ بلوچ علیحدگی پسند رجحانات کے خاتمے کے لیے مذہبی رہنماؤں سے زیادہ کارگر ثابت ہو سکتے ہیں۔ مختلف مکاتبِ فکر کے اندر بھی جغرافیائی حوالے سے واضح تقسیم نظر آتی ہے۔اس طرح کے گروہوں کا اثرو رسوخ کوئٹہ، قلات، نصیرآباد، جھل مگسی اور پختون علاقوں میں زیادہ نظر آتا ہے۔ اس کے برعکس دیگر اضلاع، گوادر، تربت، پنجگور، واشک، چاغی، خاران، کچ، نشکی اور اواران سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنماؤں میں قوم پرست رجحانات کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔پاکستانی بلوچ قوم پرست مزاحمتی تنظیمیں بائیں بازو یا سیکولر نظریات کی حامل ہیں۔ بلوچستان میں سی پیک سے متعلقہ شعبے کے سربراہ اور ماہرِ بشریات حفیظ جمالی کہتے ہیں کہ ’’مسئلہ اس قدر سادہ ہے نہیں، جتنا اکثر اوقات سمجھا جاتا ہے۔‘‘ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے وسطی اضلاع خان آف قلات کے دور سے ہی نسبتاً زیادہ مذہبی رجحانات کے حامل رہے ہیں۔جمعیت علماے اسلام(ف) کے مقامی رہنما اور مدرسہ معلم حافظ زبیر احمد کہتے ہیں کہ ’’دنیاوی اور مذہبی، دونوں طرح کی تعلیم بلوچ سماج کو بدل رہی ہے۔‘‘ وہ دعویٰ کرتے ہیں مدارس کی بڑھتی ہوئی تعداد سے نہ صرف شرح تعلیم بلند ہورہی ہے بلکہ نچلے متوسط طبقے کی ایک نئی کھیپ بھی جنم لے رہی ہے جو اپنے سیاسی حقوق کے لیے زیادہ حساس ہے۔ طاقتور قبائلی یا سرداری نظام اپنے آپ کو بلوچ ثقافت و سماج اور سیاسی تمدن کا وارث سمجھتا ہے۔ماضی میں روایتی مذہبی ڈھانچہ سرداری نظام کے ساتھ کسی حد تک ہم آہنگ تھا اور شاذہی ان دونوں نے کبھی ایک دوسرے کی حیثیت کو چیلنج کیا تھا، لیکن بڑھتی ہوئی مذہبیت کے باعث اب یہ رْجحان بدل رہا ہے۔مدارس میں چھوٹے بڑے مدارس کی مجموعی تعداد10000 سے زائد ہے۔ایک تخمینے کے مطابق ہر1200سے 1300 افراد کے لیے ایک مدرسہ موجود ہے۔ اس کے برعکس سند ھ اور خیبر پختونخوا میں بالترتیب 45000 سے 50000 اور10000 سے 12000 افراد کے لیے ایک مدرسہ موجود ہے۔ تاہم یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ مدرسہ انقلابی افکار و نظریات کاکوئی نیا مرکز ہے۔ان مدارس نے انہیں نہ صرف افرادی قوت فراہم کی بلکہ نظریاتی و سیاسی مدد بھی فراہم کی۔کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے صحافی اور تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کے مطابق مدارس میں پڑھنے والے طلبہ کی زیادہ تعداد پختونوں پر مشتمل ہے۔ایسی تنظیمیں جنہوں نے بلوچ طلبہ کو بڑے پیمانے پر قومی مذہبی اور سماجی مباحث کا حصہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ان میں تبلیغی جماعت کافی اہم ہے۔ ادھر ایران میں جیش عدل گروہ جند اللہ کے برعکس بلوچ اکثریتی صوبوں کے حقوق کی جدوجہد کررہا ہے، اس کے پیشِ نظر ان علاقوں کی آزادی نہیں ہے۔تاہم زمینی حقیقتیں کوئی اور کہانی کہتی ہیں۔پاکستان کے سرحدی علاقوں کے کچھ نوجوانوں میں اس گروہ کی جانب رغبت پیدا ہوئی اور وہ اس کا حصہ بن گئے۔کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے صحافی اکبر نوتے زئی کا خیال ہے کہ ’’اس کی وجہ بے روزگاری بھی ہوسکتی ہے۔‘‘ پاکستان سے تعلق رکھنے والے مزاحمت کاروں کا ماننا ہے ایرانی حکومت ابھی تک بلوچ اکثریتی صوبہ سیستان میں بلوچ ثقافتی مرکز کا قیام عمل میں لائی ہے نہ وہاں بلوچی زبان میں کتب شائع ہو سکتی ہیں۔ایک سیکولر بلوچ ایرانی انتخابات میں حصہ تک نہیں لے سکتا۔

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز