مسعودحسن رضوی ادیب کا ذکر ہواور ڈاکٹر طاہر تونسوی ذہن میں نہ آئے تو اسے ناممکنات میں تصور کرنا چاہیے۔طاہر تونسوی، مسعود حسن رضوی اور مسعود حسن رضوی، طاہر تونسوی کے لیے آب حیات ثابت ہوا۔میرا طاہر تونسوی سے غائبانہ تعارف اس وقت ہوا جب وقت کی تقسیم ۱۹۸۸ کو کاٹ رہی تھی۔میں اس وقت بی۔اے کا طالب علم تھا۔اردو ’’اختیاری‘‘ کے نصاب میں مسعود حسن رضوی کی کتاب ’’ہماری شاعری۔معیار و مسائل ‘‘ شامل تھی۔موصوف نے اس پر اپنے انداز سے ایسا مبسوط مقدمہ لکھا تھا کہ ہم اصل کتاب سے مستغنی ہو گئے۔موصوف واحد پاکستانی ادبی شخصیت تھےجو ہندوستان کے وسیع ادبی حلقے میں پہچانے جاتے تھے۔
یوں ڈاکٹر طاہر تونسوی سے غائبانہ تعارف تو ہو گیا لیکن ان کی کوئی ’’پیکر بے روح‘‘ دستیاب نہ ہو سکی۔اُن سے پہلی ملا قات ۲۰ مارچ ۲۰۰۸ کو سرگودھا یونیورسٹی میں ہوئی ۔لفظ ’’تونسوی‘‘ میرے تصورات کی دنیا میں کچھ یوں تھا کہ تونسہ شریف کی نسبت سے اگر سر پر پگڑی نہیں تو ٹوپی ضرور ہو گی اور داڑھی کا ہونا تو لازم تھا۔ موصوف کو دیکھتے ہی میرا تصوراتی محل یک لخت زمیں بوس ہو گیا۔جو شخص میرے سامنے صدر شعبہ کی کرسی پر براجمان تھا ،عقابی نگاہ کا مالک تھا۔ننگا سر، منڈھی ہوئی داڑھی اور عمر کی کہنگی کو دور جھکٹتے ہوئے نوجوانوں جیسے طرز عمل کا مظاہرہ کر رہا تھا۔
موصوف کوئی ڈھکی چھپی شخصیت نہیں تھے۔وہ اپنی ذات میں خود ایک انجمن تھے۔انہیں ایک کھلی کتاب سے بھی تشبیہ دی جا سکتی ہے بلکہ میری نظر میں وہ اس شعر کے مصداق ہیں:
؎ وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں روشناس خلق اے خضر
نہ تم کہ چور بنے عمر جاوداں کے لئے
ان کا مزاج بھی اک طرفہ تماشا تھاجو جلال و جمالی کا حسین امتزاج پیش کرتا تھا۔سیمابی طبیعت پل میں تولہ پل میں ماشہ میں بدلتی رہتی تھی۔ وہ بلا کی بااعتماد شخصیت تھے۔مجھے ڈپٹی نذیر احمد دہلوی کی طرح سلف میڈ(Self Made) انسان نظر آئے۔وہ یقیناًاپنے آدرش اور نظریات رکھتے تھے۔گو ان کا اظہار عام نہیں کرتے لیکن زیست انہی اصولوں کے تحت کر رہے تھے۔وہ دوستوں کے دوست اور دوست کے دشمنوں کے بھی دشمن تھے۔ اوریئنٹل کالج سے طالب علمانہ وابستگی کے باوجود آج کے اوریئنٹلسٹوں کو نہیں بخشتے۔لہذا روح غالب سے معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہےکہ
؎دیکھیو، ’’طاہر‘‘ سے گر الجھا کوئی
ہے ولی پوشیدہ اور کافر کھلا
ایک نمایاں وصف جو موصوف میں فولاد میں جو ہر کی طرح تھا، وہ احباب کی دستگیری تھی۔کوئی احتیاج پیش کریں۔اگر ان کی دسترس میں ہے تو سائل کو انتظار کی زحمت بھی گوارا نہیں کرنے دیتے۔ ڈاکٹر صاحب کی ملازمت کا زیادہ دورانیہ انتظامی عہدوں کی نذر ہوا ہے۔یقیناً مزاج پر اس کےاثرات نمایاں نظر آتے ہیں لیکن موصوف نے اپنے رفقاکار کو کبھی بے گانگی کا احساس نہیں ہونے دیا اور ہمیشہ تکلف برطرف رکھتے تھے۔اس ضمن میں شخصیت کے حوالے سے ایک چیز ذہن میں آتی ہے کہ عموماً انتظامی عہدوں پر فائز شخص علمی و ادبی بکھیڑوں سے دور جا پڑتا ہے لیکن موصوف کے علمی و ادبی کارناموں کو دیکھتے ہوئے یہ خیال نقش باطل ثابت ہو جاتا ہے کیونکہ انہوں نے اوسطاً تین کتابیں فی سال کے حساب سے لکھی ہیں جن کی تعداد لمحہ موجود میں اسی سے بھی متجاوز ہو رہی ہے ۔
مرحوم بات کرنے کے معاملے میں بھی’ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی ‘والی بات تھی۔محفل کو زعفرانِ زار بنانے کا فن کوئی اُن سے سیکھے۔وہ ایام کے مرکب نہیں بلکہ راکب تھے۔’’رو میں ہے رخشِ عمر،کہاں دیکھیے تھمے‘‘والےمعاملے کا ورق اُن کی کتابِ حیات سے خارج تھا۔گُھٹ گُھٹ کے جینا تو گویا طاہرتونسوی کے مسلک کے خلاف تھا۔وہ سب کی سنتے بھی تھے لیکن اپنی بھی ضرورسناتے تھے۔شاید ڈاکٹرسلیم اختر کے شاگردِرشید ہونے کے ناطے جنسی اور غیرشرعی لطائف کا بھی بھرپور تبادلہ کرتے تھے۔موصوف کے والدین شاید اُن سے بھی بڑھ کرقیافہ شناس نکلے۔پطرس بخاری کا یہ جملہ اُن کے ذہن میں تھا کہ لاہوراورلندن میں چنداں فرق نہیں۔سو پاوں میں بیڑی ڈال کرلاہورکے سپردکردیا۔ولی دکنی تو محض جمال پرست شاعر تھا لیکن طاہرتونسوی جمال پرست شاعر کے ساتھ ساتھ جمال پرست اُستاد بھی تھے۔ڈاکٹر سلیم اخترغالب کے ہاں پابوسی کے رجحان کوتوسامنے لائے لیکن اِس ضمن میں طاہرتونسوی کوبھول گئے۔ایک طرف اگرڈاکٹر سلیم اختر کا عمومی رویہ زن گریزی،نا خوش گفتاری،نہ لطیفہ گوئی اورنہ باتونی پن تھا تو دوسری طرف ڈاکٹر طاہر تونسوی اِن تمام زاویوں کے برعکس تھے۔وہ تو’’وجودِزن سے ہے کائنات میں رنگ‘‘پریقینِ کامل رکھتے تھے۔ لیکن طاہر تونسوی محض نفسی اور جنسی موضوعات تک محدود نہیں رہے بلکہ تحقیق و تنقید کی دنیا میں ایک مستند حوالہ بھی ٹھہرے ہیں۔
موصوف غالب کی طرح ہمیشہ آتش زیر پا رہتے تھے۔زودرنج بھی اور زود مسرت بھی۔کراچی کے بے اعتبارموسم کی طرح کچھ پتا نہیں کہ کب چہرے پر مسکراہٹ کے پھول کھلنے لگیں اور کب رنگ ملال آ جائے۔ان کی ناراضی کے بے شمار اسلوب ہیں ، جن میں دو انداز نمایاں ہیں۔ایک دھیمی لیکن دیر پا ناراضی ،لہذا اس انداز سے بچنا چاہیے۔دوسرے انداز میں سیل تندور کی کیفیت پائی جاتی ہے لیکن یہ لمحاتی، وقتی اور جلد ہی کافور ہو جانے والی ہوتی ہے۔ناراضی کے ان اسالیب میں بھی احباب کا خاص خیال رکھتے تھے۔ شاید اسی لیے اقبال نے کہا تھا کہ
؎ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
موصوف میر و غالب سے خاص شغف رکھتے تھےاور ان پر تصرف صرف اپنا حق خاص سمجھتے تھے۔مجھے مرحوم میں کہیں کہیں غالب کی خاص طرز زیست کا انداز بھی جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔ غالب کی طرح وہ وسیع المشرب بھی اور وسیع حلقہ احباب بھی رکھتے تھےجن میں عامی اور عالم دونوں شامل ہیں۔ان کے شاگرد بھی تلامذہ غالب کی طرح پورے بر عظیم میں فوج ظفر موج کی طرح پھیلے ہوئے ہیں بلکہ اب تو برعظیم کے حلقہ شام وسحر سے نکل کر دیار یوسف تک پہنچ چکے ہیں۔ان کے موضوعات کے تنوع اور وسعت کی بنا پر لکھاری تذبذب میں پڑ جاتا ہےکہ کہاں سے شروع کروں،کس سے شروع کروں اور کیسے شروع کروں۔ یقینا ان کے ادبی کارناموں پر قلم اٹھانا بڑے دل گردے کا کام ہے جس سے میں بھی سر دست محروم ہوں۔صرف اتنا عرض کروں گا کہ اردو ادب کا جو طالب علم ڈاکٹر طاہر تونسوی کو نہیں جانتا اس کا علم مشکوک ہے۔
سرائیکی شعرا کو گمنامی کے گڑھے سے نکالنے کا سہرا طاہر تونسوی کے سر ہے۔وہ تحقیقی معاونت میں بھی ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔ان کی شخصیت کے اس پہلو پر یہ شعر صادق آتا ہے
؎دشمن بھی جو چاہے تو میری چھاوں میں بیٹھے
میں اک گھنا پیڑ سر راہ گذر ہوں
لیکن یہ الگ بات ہے کہ دشمن اس گھنی چھاوں میں اکڑوں بیٹھنے پر ہی اکتفا کرتے تھے کہ کیا پتا کب بے آبرو ہو کر نکلنا پڑے۔فلیپ ، پیش لفظ، دیباچہ وغیرہ لکھنے کی فرمائش پر مرحوم سیخ پا اور چیں بہ چیں تو ضرور ہوتےتھے لیکن کسی کی دل شکنی نہیں کرتے۔ یہی ان کی عظمت کا راز بھی ہے۔ دنیائے تحقیق وتنقید ادب میں موصوف کا بس ’’نام ہی کافی ہے‘‘۔میں ایک بات کہنے کی جسارت کروں گا کہ ڈاکٹر طاہر تونسوی ادبی تاریخ بھی ہیں اور ادبی تاریخ ساز بھی۔ایسے ادبی دیدہ ور روز روز پیدا نہیں ہوا کرتے۔آج وہ ادب میں ایک تحقیقی و تنقیدی اور تخلیقی فعالیت کا استعارہ بن چکے ہیں اور اس مقام پر براجمان ہو چکے ہیں جس مقام پر غالب کو بھی اپنا تعارف کرانا انتہائی نالاں گزرتا تھا
؎پوچھتے ہیں وہ کہ ’’طاہر‘‘ کون ہے
کوئی بتلاے کہ ہم بتلائیں کیا
ڈاکٹرمحمد یار گوندل