287

انسان ،حالات اور خوشی

 

آج سے کئی سال پہلے کی بات ہے جب ہم سب دوست مل کر خوب مزے کرتے کرکٹ کھیلتے گرمیوں میں ٹھنڈے پانی میں نہاتے اسکول ساتھ جاتےمحفلیں سجاتے یعنی گھر سے دور کسی ایسی جگہ جاتے جہاں ٹھنڈے پانی کے ساتھ ساتھ سایہ دار درخت بھی موجود ہوتے۔

وہاں کچا گوشت روٹی اور کھانے پینے کا ڈھیر سارا سامان لے جاتے کچھ دوست کھانا بنانے میں لگ جاتے اور باقی اس مقام کی خوبصورتی اور حسین نظاروں سے لطف اندوز ہوتے چونکہ وه زمانہ آج کل کی طرح ایڈوانس اور امیر نہیں تھا۔

سادگی اور غربت کا بول بالا تھا اس لئے ہم اکثر دوردراز محفلوں کے لئے سائیکلوں کا استعمال کرتے اکثر سائیکل چلاتے ہوئے سوچتے یار کب ہم عمر کی ان سیڑھیوں پر چڑھتے ہوۓ اس مقام پر پہنچے گے کہ جب ہمارے پاس بھی پیسے ہونگے سائیکل کی بجائے موٹر سائیکل اور کاریں ہونگی اور ہم بھی زندگی سے بھرپور لطف اٹھا سکیں گے ۔

آج تقریبا میں زندگی کے 35،36 سال کا سفر طے کر چکا ہوں اور اللّه نے وه ساری خواہشیں آرزوئیں پوری کر دی جس کا خواب ہم ان دنوں دیکھا کرتے تھے ہم وه سارے دوست جو کبھی اس زمانے میں دن رات ساتھ ہوتے تھے آج ہر کوئی اپنی اپنی زندگی میں اس قدر مگن اور مصروف ہے کہ مصروفیت کے اس دور میں سالہا سال ایک دوسرے سے مل بھی نہیں پاتے۔

آج میں اکثر اوقات تنہائیوں میں سوچتا ہوں کہ اللہ نے ہمیں وہ سب کچھ دیا جسے ہمیں پانے کی خواہش تھی آج ہم سائیکلوں کی بجائے موٹر سائیکلوں اور کاروں پر سفر طے کرتے ہیں لیکن وه مزہ وه لطف باقی نہ رہا جو ان سائیکلوں اور محفلوں میں ہوتا۔

وہ سکون وه راحت بھرے لمحے اب میسر نہیں یا پھر میسر تو ہیں لیکن ان جیسے پرسکون پر لطف نہیں وقت کا پرندہ اس تیزی سے اڑ رہا ہے کہ سوائے یادوں کے ہمارے پاس کچھ بھی باقی نہیں بچا نہ وه دوست نہ وه وقت نہ وه محبت بھرے لمحے نہ وه پر سکون زندگی۔

آج ہمارے کچھ دوستوں کے پاس زندگی کی ہر آسائش موجود ہے لیکن وه صحت کی دولت سے محروم ہیں اس دور میں محدود وسائل کے باوجود بھی زندگی میں بہار ہی بہار تھی جبکہ آج دولت کی فراوانی کے باوجود بھی ہر طرف خزاں ہی خزاں ہے ۔

کیونکہ ہم انسان کبھی بھی اپنے موجودہ حالات پر اللہ کا شکر ادا نہیں کرتے اس وقت جب ہم مخلص دوست خوبصورت وقت اور اچھی صحت جیسی خوبصورت نعمتوں سے مالامال تھے تو تب ہمیں ان سب کی قدر نہیں تھی اور ہمیشہ ہم اپنے مستقبل کے بارے میں سوچ کر اس خوبصورت وقت کے مزے کو کرکرا کر دیتے۔

آج ہم جب زندگی کے اس دوراہے پر کھڑے ہیں جس کے لئے ہم دعائیں کرتے تھے اور اکثر آج ماضی کی یادوں میں جھانک کر ہم اپنا حال بے سکون اور افسردہ کر دتیے ہیں ۔

شائد ہم انسان وه عجیب مخلوق ہیں جو کبھی بھی اپنے موجودہ حالات سے خوش نہیں رہتے ماضی اور مستقبل کے چکر میں اکثر ہم انسان اپنے حال سے بھی ناخوش نظر آتے دکھائی دیتے ہیں ہمیشہ اگے کی فکر میں ہم بے سکون اور بے چین رہتے ہیں حالانکہ ہمارے بس میں کچھ بھی نہیں نہ ماضی نہ حال اور نہ ہی مستقبل یہ سب تو قسمت کے کھیل ہیں اب قسمت ہمیں زندگی کے یہ کھیل کسے کھیلواتی ہیں یہ تو قدرت ہی جانے ۔

اس لئے زندگی کی اس گاڑی میں اپنے ماضی کے بارے میں اتنا سوچے اور جھانکےجتنا کہ ہم گاڑی کے سائیڈ اور گاڑی کے اندر موجود آئینوں سے پیچھے کے حالات کا نظارہ کرتے ہوۓ اندازہ لگاتے ہیں اور مستقبل کے بارے میں گاڑی کے سامنے والی مین سکرین میں دیکھ کر اگے کے حالات کا اندازہ لگاتے ہیں اور حال کے بارے میں گاڑی میں موجودہ حالات ہی ہمارا حال ہے ۔

لہذا ہمیں اپنے حال سے بھرپور لطف اندوز ہونا چائیے ماضی اور مستقبل سے مبرا ہو کر کیونکہ حال ہی ہماری اصل حقیقت ہے ماضی جو بیت گیا وه واپس کبھی انے والا نہیں اور مستقبل جس کے انے تک ہماری کوئی گارنٹی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔

 

بشکریہ اردو کالمز