203

یوکرین جنگ، چند مشاہدات

لگ بھگ دو ہفتہ قبل یوکرین کے خلاف روس کی ننگی جارحیت کی وجہ سے جہاں ایک نئی ممکنہ سرد جنگ کے آغاز کا عندیہ ملتا ہے وہیں بظاہر جمہوری روایات، برداشت، امن اور غیر جانبداری کا درس دینے والے مغربی ممالک کی سیاست اور وہاں کے سماج میں چھپے کئی طرح کےتضادات ایک بار پھر کھل کر سامنے آئے ہیں۔ روسی بمباری کے خوف سے جہاں لاکھوں یوکرینی مردوزن پڑوسی ممالک میں پناہ لینے کیلئے بھاگ گئے وہیں یوکرین میں موجود ہزاروں غیر ملکی خاص کر ایشیائی اور افریقی طلبا بھی اپنی جانیں بچانے کیلئے ملک سے نکل گئے ان غیر سفید فام غیر ملکیوں کو مگرقدم قدم پر تشدد، پابندیوں، نسل پرستی اور دہرے معیار کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ جنگ سے خوفزدہ یوکرینی جب پبلک ٹرانسپورٹ، جن میں ٹرینیں اور بسیں شامل ہیں، کی طرف بھاگنے لگے تو ایشیائی خاص کر بھارتی اور افریقی طلبا جو یوکرائن میں زیر تعلیم ہیں کو ان بسوں اور ٹرینوں پر چڑھنے سے منع کیا گیا یہاں تک کہ ان کو پبلک ٹرانسپورٹ کے استعمال سے روکنے کیلئے دھمکیوں اور تشدد کا استعمال بھی کیا گیا۔ ہزاروں غیر ملکی طلبا کو جنگ زدہ علاقوں سے سینکڑوں میل پیدل چلنا اور دورانِ سفر انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کسی موقع پر افریقی طلباکو اگربسوں میں جگہ ملی بھی تو انہیں کھڑا رہنا پڑا کیوں کہ سیٹیں سفید فام رفیوجیوں کیلئے مختص کی گئی تھیں۔ سرحد پر جہاں یوکرینی باشندوں کو بغیر کسی رکاوٹ اور بعض اوقات بغیر پاسپورٹ اور شناختی دستاویزات کے ہمسایہ ممالک میں بخوشی تسلیم کیا گیا وہیں ہزاروں ایشیائی اور افریقی شہریوں کو سرحدوں پر نہ صرف روکا گیا بلکہ انہیں یوکرینی اور دیگر ممالک کی سرحدی پولیس کی جانب سے کئی بار تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ کچھ مقامات پر تو جان بچانے والے ان طلبا کو ’’کالے لوگوں کیلئے مختص کی گئی‘‘ جگہوں تک محدود رکھا گیا جس سے صدیوں تک یورپ میں اپنائی جانے والی نسل پرست پالیسیوں کا اندازہ ہوتا ہے۔

ڈنکے کی چوٹ پر اس کھلے عام تعصب اور نسل پرستی کی تاویلیں بھی کھلے عام پیش کی جانے لگیں جس میں بظاہر ’تہذیب یافتہ‘ مغربی ممالک کا آزاد میڈیا اور وہاں کے سیاست دان کھل کر حصہ لینے لگے۔ پہلے تو امریکہ کے قومی ٹیلی وژن کے ایک لائیو نیوز پروگرام میں ان کے نمائندے نے جنگ پر افسوس کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ یہ جنگ عراق یا افغانستان میں نہیں ہو رہی بلکہ یہ نسبتاً مہذب یورپی ملک میں ہو رہی ہے جہاں انہیں جنگ کی توقع یا امید نہیں تھی کہ ایسا ہوسکتا ہے۔ فرانسیسی نیوز چینل بی ایف ایم کے فلپ کوربیے نے جنگ کی تباہ کاریوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا’’ہم یہاں شامیوں کے بارے میں بات نہیں کر رہے ہیں جو پیوٹن کی حمایت یافتہ شامی حکومت کی بمباری سے بھاگ رہے ہیں۔ ہم یورپیوں کے بارے میں بات کر رہے جو اپنی جان بچانے کے لیے ہماری جیسی کاروں میں بھاگ کر جانیں بچارہے ہیں‘‘۔ برطانیہ کی کنزرویٹو پارٹی کے سابق ممبر برائے یورپین پارلیمنٹ اور تبصرہ نگارڈینیل ہنن نے برطانیہ کے معاصر روزنامہ ٹیلی گراف کےلیے ایک مضمون میں حیرت کا اظہار کرتے ہوئے یوکرینیوں کے بارے میں لکھا:’’وہ ہمارے جیسے لگتے ہیں۔ یہی چیز اسے بہت چونکا دینے والی بناتی ہے۔ یوکرین ایک یورپی ملک ہے۔ اس کے لوگ نیٹ فلیکس دیکھتے ہیں اور ان کے انسٹا گرام اکاؤنٹس ہیں،افغانیوں، شامیوں، یمنیوں اور فلسطینیوں کے خلاف کئی دہائیوں سے جاری جنگ اور اس کی تباہ کاریوں پر اس طرح تبصرہ کیا جارہا ہے جیسے ان جگہوں کے لوگوں پر روا غیر انسانی سلوک نہ صرف ایک معمول ہے بلکہ وہ اسی سلوک کے مستحق ہیں۔ اسی طرح کے ایک اور تبصرے کے دوران ایک اور برطانوی صحافی نے ایک ٹی وی انٹرویو میں روس کی جانب سے استعمال کئے جانے والے وکیوم بم کو جہاں چونکا دینے والا قرار دیا وہیں اسی سانس میں امریکہ کی جانب سے افغانستان میں اس کے استعمال کو اس طرح بیان کیا جیسے یہ نہ صرف نارمل ہو اور اس سے نشانہ بنائےجانے والے عام افغان انسان ہی نہ ہوں۔

روسی جارحیت کا مقابلہ کرنے کیلئے اب یورپی صحافی بھی یوکرینیوں کی امداد میں پیش پیش نظر آرہے ہیں۔ بی بی سی کے مشرق وسطیٰ کے ایڈیٹر نے تو روسی ٹینکوں پر پٹرول بموں سے حملے کی تصویریں اپنے ٹویٹر اکائونٹ کے ذریعےجاری کردیں۔ اسی طرح کے عوامی بیانات اور ہدایات کئی اور صحافی اور سیاستدان بھی دے چکے ہیں اور کئی ہزار یوروپین باشندے اپنی حکومتوں کی حوصلہ افزائی کے نتیجے میں روس کے خلاف مسلح جدوجہد میں شریک ہورہے ہیں۔ دو ہفتے قبل تک اسے دہشت گردی سے تعبیر کیا جارہا تھا مگر اب نئی سرد جنگ میں سب جائز ہے۔

بشکریہ جنگ 

بشکریہ جنگ نیوزکالم