1043

سیالکوٹ: انقلاب کا اہم موڑ

سری لنکا میں ہزاروں مسلمان ہر رات اس خوف کو سینے سے لگائے سوتے ہیں کہ نجانے کل کس پر کیا مقدمہ بنا کر اس کا کیا حال کیا جائے۔ سیالکوٹ کا واقعہ سری لنکا میں ان تمام قوتوں کے لیے، جو مسلمانوں کے درپے ہیں، ایک سنہرہ موقع ثابت ہوگا۔

سول سوسائٹی کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے اراکین نے 4 دسمبر 2021 کو کراچی میں سری لنکا کے فیکٹری مینیجر کے قتل کے خلاف احتجاج کے دوران پلے کارڈ اٹھائے ہوئے ہیں(فوٹو:اے ایف پی)

سیالکوٹ میں مارا جانے والا سری لنکن، ٹیکسٹائل انجینیئرنگ میں گولڈ میڈلسٹ تھا۔ وہ گذشتہ کئی دہائیوں سے ٹیکسٹائل کے کاروبار کو اعلیٰ انتظامی معیار پر چلانے کی شہرت رکھتا تھا۔

جس فیکٹری نے انہیں پاکستان میں کام کرنے کا موقع دیا وہ دنیا بھر میں ٹیکسٹائل کے بڑے بڑے برانڈز کو مال فراہم کرتی ہے۔ چینی کمپنیاں بھی اس سے مال لیتی ہیں۔ اس شخص کا ایک بھائی بھی پاکستان میں ملازمت کر رہا ہے۔

اس کے لرزہ خیز انجام کی خبر اس کی بیوی سمیت رشتہ داروں کو انٹرنیٹ پر وائرل ہو جانے والی ویڈیوز کے ذریعے ملی۔ تھوڑی سی انسانیت رکھنے والے دماغ اور دل بھی یہ سمجھ سکتے ہیں کہ مار کر جلائے جانے والے کے چاہنے والوں کا ردعمل کیا ہوگا۔

 وائرل ہونے والی ویڈیوز میں ایک ویڈیو جواں سال لوگوں کے ایک اکٹھ کی بھی ہے جس میں وہ ٹی وی کیمروں اور مائیک کے سامنے کھڑے ہو کر فخریہ انداز سے اپنی کارروائی کی تفصیل بتا رہے ہیں۔ ان کے بیانات میں تضادات سے قطع نظر ان کا جوش اور جنون بہرحال ایک جیسا ہے۔ وہ اور ان کے ساتھ کھڑے انہی کی عمروں کے لوگ نعرے لگا لگا کر ان کے بیانیے پر نہ صرف مہر ثبت کر رہے ہیں بلکہ یہ بھی بتا رہے ہیں کہ کس طرح وہ یہ کام بار بار کریں گے۔

ان میں سے دو تین کیمرے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنا نام اور علاقہ اس انداز سے بتاتے ہیں کہ جیسے اس کے بعد ان کو کسی قومی تمغے یا انعام ملنے کی امید ہو۔ ان کی عمریں اٹھارہ سے بمشکل بیس سال تک کی ہوں گی۔

قارعین کو پتہ ہونا چاہیے کہ پاکستان میں ٹیکسٹائل انڈسٹری میں غیرملکیوں کا کام کرنا ایک نئے رواج کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ ملیشیئن، کورین، فلپینوز، چائینیز اور دیگر قوموں کے لوگ انتظامی امور کو سنبھالنے پہ مامور ہیں۔ سیالکوٹ کے اندہوناک واقعے کے بعد اب یہ تمام لوگ شاید یہاں سے بوریا بستر لپیٹ کر نکلنے کے چکر میں ہوں گے۔

ان میں سے چار ممالک کے سفارت خانوں نے اپنے شہریوں کو پاکستان میں کام کرنے کے خطرات سے دوبارہ آگاہ کیا ہے اور ان کو باور کروایا ہے کہ حالات خراب ہونے کی صورت میں وہ ان کا تحفظ نہیں کر پائیں گے۔ ایک ایسا ملک میں جو ہر دو ماہ کے بعد اربوں کے قرضوں کا متلاشی رہتا ہے، اپنی کلیدی صنعت میں پیدا شدہ اس بھونچال کی یقیناً بھاری قیمت چکائے گا۔

 سری لنکا میں موجود مسلمانوں کے خلاف پہلے سے ہی ایک مقامی تحریک چل رہی ہے جس کی قیادت کرنے والے مذہبی بنیادوں پر پرتشدد پالیسیوں کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں موجود مسلمان ہر رات اس خوف کو سینے سے لگائے سوتے ہیں کہ نجانے کل کس پر کیا مقدمہ بنا کر اس کا کیا حال کیا جائے۔ بین الاقوامی طور پر کالعدم قرار دی گئی چند دہشت گرد تنظیمیں اس موقعے سے فائدہ اٹھا کر سری لنکا میں اس فساد کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔

سری لنکا کے مسلمان24 مئی 2019 کو ایسٹر سنڈے کے خودکش حملوں کے متاثرین کو یاد کرنے اور اس دہشت گرد گروہ کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے جمع ہیں جس میں 258 افراد ہلاک ہوئے تھے(اے ایف پی)

سری لنکن حکومت اس معاملے سے نمٹنے کے لیے جو اقدامات کرتی ہے اس پر بین الاقوامی طور پر تفتیش کا اظہار کیا جاتا ہے کیوں کہ اس سے مخصوص مذہبی گروپ متاثر ہوتے ہیں۔ بہرحال سیالکوٹ کا واقعہ سری لنکا میں ان تمام قوتوں کے لیے، جو مسلمانوں کے درپے ہیں، ایک سنہرہ موقع ثابت ہو گا۔

ایک سری لنکن کو سڑک پر جلایا جانا سری لنکا میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کی وجہ بن سکتا ہے۔ ایک کے بدلے درجنوں خون ہو سکتے ہیں۔ اس سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ ہمارے کارناموں کی گونج کہاں تک پہنچتی ہے اور اس سے پیدا کی ہوئی غضبناک بجلیاں کتنے آشیانوں کو بھسم کر دیتی ہیں۔

 حکومت کا کہنا ہے کہ اس واقعے میں ملوث لوگ بچ نہیں پائیں گے۔ اس سے پہلے حکومت کا کون سا کہا سچ ثابت ہوا جو یہ ہوگا۔ ایک ایسا نظام جو اپنے پولیس والوں کو بے دردی سے مارے جانے پر انصاف کے تقاضے نہ پورے کرسکے ایک غیر ملکی کو جلانے والوں کو کیسے کٹہرے میں کھڑا کرے گا۔ معاہدے کرنے والے احتساب کیا کریں گے؟ پاؤں چھونے والے قانون کو کیا لاگو کریں گے؟ اور کتنوں کے خلاف کریں گے؟

اطلاعات کے مطابق مقدمے کی ایف آئی آر 600 افراد کے خلاف درج کی گئی ہے، جنہوں نے ایک نہتے غیرملکی کو شک اور افواہ کی بنیاد پر ہاتھوں، پیروں، ڈنڈوں، پتھروں سے مارا اور پھر اپنے جذبے کو اس کی لاش بھسم کر کے ٹھنڈا کیا۔ بتایا جا رہا ہے کہ 600 میں سے 236 گرفتار ہو چکے ہیں۔ پانچ شہروں میں پھیلے ہوئے 600 افراد کب پکڑیں جائیں گے؟ ان کے خلاف چالان کب سامنے آئے گا؟ عدالتی کارروائی کیا ہو گی؟مقدمہ کتنا طویل ہو گا؟ ہم سب کو پتہ ہے کیا ہو گا۔

اگر دو چار کو سزا دے بھی دی تو ان کو بعض مذہبی عناصر کی جانب سے عزت کے اعلیٰ درجے پر پہنچانے کے عمل کو کیسے روک پائیں گے؟ ہم نے پچھلے چند سالوں میں ہجوم کو اپنے سیاسی اور ذاتی مفادات کے لیے ان معاملات پر اتنی مرتبہ استعمال کیا ہے کہ اب یہ سند یافتہ نظریاتی کارکنان بن چکے ہیں۔

سری لنکن شہری کے آخری لمحات کی ویڈیوز دل دہلانے کے لیے کافی ہیں۔ اس سے زیادہ افسوسناک وہ نعرے ہیں جو ان ویڈیوں میں سنے جا سکتے ہیں اور پھر اس وحشت کو مسکراتے ہوئے موبائل کیمروں کے ذریعے فلم بند کرتے ہوئے سینکڑوں لوگ آپ کو چلا چلا کر بتا رہے ہیں کہ یہ سونامی نہیں رکے گی۔

یہ مناظر شاہد ہیں کہ پاکستان میں تبدیلی آ گئی ہے۔ ایک نیا ملک بن گیا ہے۔ ایک نئی قوم جنم پا چکی ہے۔ اب وہی بچے گا جو اس قوم کا فرد بنے گا۔ باقی سب یا بھاگیں گے یا جلائے جائیں گے۔ یہ قوم اس انقلاب کو لانے والوں کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔

تاریخ میں بہت کم لوگ اتنے کم عرصے میں کسی ملک کی سمت ایسے تبدیل کر سکے جیسے بانیان نے کیا۔

بشکریہ انڈپینڈنٹ نیوز