926

جہانگیر ترین کا گروپ

جہانگیر ترین نے یہ سب کچھ اپنے دھڑے کے ارکان کے لیے نہیں کیا۔ ان کو معلوم ہے کہ اگر مخصوص قسم کا احتساب ایسے ہی چلتا رہا تو تحریک انصاف میں ان کے خون کے پیاسے ان کا کاروبار اور مستقبل مکمل طور پر تباہ کر دیں گے۔twitter sharing buttonwhatsapp sharing buttonsharethis sharing button

جہانگیر ترین بیٹے کے ساتھ عدالت میں پیشی کے موقعے پر (تصویر جہانگیر ترین فیس بک پیج)

جہانگیر خان ترین کے گروپ نے تہلکہ مچایا ہوا ہے۔ ہر کوئی یہ جاننا چاہتا ہے کہ اس گروپ نے اتنی تیزی سے اتنی اہمیت کیسے اختیار کی؟

جہانگیر ترین تاحیات نااہل ہو کر عملی سیاست سے علیحدہ ہو چکے ہیں۔ ہاں اگر آرٹیکل 62، 63 مستقبل میں کبھی آئین سے نکال دیا جائے اور ثاقب نثار جیسے کوئی منصف کسی آئینی شق کو استعمال کر کے ان کو یہ حق واپس دلوا دیں تو علیحدہ بات ہے۔

مگر فی الحال جہانگیر خان ترین سیاسی میدان سے باہر ہیں اور ان کی تمام تر دولت اپنے حلقے میں ایک یونین کونسل کا الیکشن جتوانے کے لیے بھی ناکافی ہے۔

ایسے میں کائیاں سیاست دانوں کا ان کے ساتھ چپک جانا، ان کے حق میں کھڑے ہو جانا اور عمران خان پر ایسی تنقید کرنا کہ دشمن بھی کانوں کو ہاتھ لگائے یقیناً ایک پہیلی سے کم نہیں۔

جہانگیر خان ترین گروپ کے بننے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ کچھ اہم اور مرکزی، کچھ ضمنی اور نسبتاً کم اہم۔ مگر سب نے مل کر نتیجہ ایک ہی نکالا ہے اور وہ یہ کہ وزیر اعظم عمران خان جیسے سخت گیر کپتان جو اپنی قیادت کے سائے میں اپنی مرضی کے بغیر گھاس بھی نہیں اگنے دیتے، اپنے سامنے اپنے کھلاڑیوں کی بغاوت اور ان کے پرانے دوست اور مہربان کے ہاتھ پر بعیت ہوتا دیکھ رہے ہیں۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ عثمان بزدار کو پنجاب میں رکھا اس لیے گیا تھا کہ ان جیسا وزیر اعلیٰ پنجاب جیسے بڑے صوبے کو مرکز کی ہدایت، مرضی اور حکم کے بغیر نہ چلا سکے اور اس طرح پنجاب سے پارٹی کے اندر مرکزی قیادت کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔

اگر کوئی پنجاب صحیح چلانے لگے تو اسلام آباد کو سنبھالنا کون سا مشکل کام ہو گا۔ لہٰذا پنجاب میں کمزور وزیر اعلیٰ اسلام آباد میں مضبوط اور بااعتماد وزیر اعظم کی ضمانت ہے۔

یہ فارمولہ لاگو کرنے والے یہ بھول گئے کہ پنجاب کی کمزوری اس سیاسی بنیاد کو ہی ہلا سکتی ہے جس پر پارٹی طاقت میں رہنے کے لیے تکیہ کرتی ہے۔

اگر ممبران صوبائی اسمبلی اپنے چیف منسٹر کو اپنی سیاست کے لیے ایک بحران کے طور پر دیکھیں تو ان کو مطمئن کرنے کے لیے کوئی راستہ موجود نہیں۔ اسلام آباد میں قد آور سینیٹرز اور وزرا کو سفارشیں کر کے وقت ملتا ہے۔ دور دراز کے صوبائی اسمبلی کے نمائندگان کو کون پوچھے گا؟

جہانگیر خان ترین کے ساتھ کھڑے ہونے والے بیشتر لوگ وہ ہیں جو پنجاب میں ترقیاتی کاموں سے جڑی ہوئی حکمرانی کے بکھرے ہوئے شیرازے میں بری طرح زخمی ہوئے ہیں۔

عثمان بزدار پنجاب جیسے مشکل اور حساس صوبے کے سیاسی جذبات کو کسی طور سنبھال نہیں پائے۔ اوپر سے عوامی جذبات ہر گاؤں، قصبے اور حلقے میں ابل رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ترین گروپ کے اکثر ممبران ٹی وی پروگراموں میں اپنے سیاسی مستقبل کا رونا روتے سنے گئے۔

ان کی سیاست داؤ پر لگی ہے۔ تین سال میں پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے ہو کر انہوں نے جو قربانی دی اب وہ رائیگاں جاتی نظر آ رہی ہے۔ دو سال بعد انتخابات ہیں۔ وہ ووٹر کو کیا منہ دیکھائیں گے؟

حکومتی جماعت ہونے کے باوجود وہ اپنی ناقص کارکردگی کو ن لیگ یا پیپلز پارٹی سے نہیں جوڑ سکتے۔ ان کو پتہ ہے کہ ووٹر اس قسم کی فضول وضاحتیں سن کر تنگ آ گیا ہے۔

پچھلی حکومتوں کو مورد الزام ٹہرانا اپنے سر پر سیاسی جوتے برسوانے کے مترادف ہے۔ اب یہ تمام لوگ جہانگیر ترین کے ساتھ کھڑے ہو کر اپنی حکومت کو کوستے ہوئے اپنی ساکھ برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اس دباؤ کی وجہ سے عثمان بزدار کی نیند بھی کھل گئی ہے اور اس طرح یہ گروپ اپنے لیے کچھ خصوصی مراعات بھی حاصل کر پائے گا۔

اس گروپ کے بننے کی دوسری وجہ پنجاب کے حلقوں میں یہ پھیلتا ہوا تصور ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اگلے انتخابات میں طاقت حاصل نہیں کر پائے گی۔ یہ تصور حقیقی ہے یا فرضی اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔ مگر یہ موجود ضرور ہے۔

حلقوں کے سیاست دان چوراہوں اور چوپالوں میں ہونے والی بحث کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ ان میں سے بہت سوں کو یہی فکر لاحق ہے کہ اگلا الیکشن کیسے جیتا جائے۔

اگر وہ پی ٹی آئی کے مستقبل کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں تو ان کے پاس یا ن لیگ کی آپشن موجود ہے اور یا پھر پیپلز پارٹی۔

پنجاب میں پیپلز پارٹی کا مستقبل پی ٹی آئی سے بھی زیادہ مشکوک ہے۔ ن لیگ کے اپنے حلقے بھرے ہوئے ہیں۔ آپشنز کی تلاش میں مصروف حلقے کے سیاست دان جہانگیر ترین کے ساتھ نتھی ہو کر خود کو یہ اعتماد دینا چاہتے ہیں کہ برا وقت آنے پر وہ کسی ایسے پلیٹ فارم پر کھڑے ہو پائیں گے جہاں سے حکومت کی ناکامیوں کا ریلا ان کو بہا نہ لے جا سکے۔

مگر یہ سب عوامل اپنی جگہ، حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ گروپ جہانگیر ترین کی اپنی کاوش اور مقتدر حلقوں کی مدد کے بغیر جنم نہ لے پاتا۔ جہانگیر ترین نے اپنی سر توڑ کوشش سے وہ سیاسی اثرورسوخ حاصل کیا ہے جو سیاست سے نااہلی کی وجہ سے بے دخلی کا بہترین متبادل ہے۔ انہوں نے اپنے ساتھ ان سیاست دانوں کو ملا کر ایک ایسا دھڑا بنا دیا ہے جس سے سینگ لڑا کر حکومت اور عمران خان صرف نقصان ہی اٹھا سکتے ہیں۔

ظاہر ہے جہانگیر ترین نے یہ سب کچھ دھڑے کے ممبران کے لیے نہیں کیا۔ ان کو معلوم ہے کہ اگر مخصوص قسم کا احتساب ایسے ہی چلتا رہا تو تحریک انصاف میں ان کے خون کے پیاسے ان کا کاروبار اور مستقبل مکمل طور پر تباہ کر دیں گے۔ اس گروپ کی طاقت جہانگیر ترین کی طاقت ہے۔

اگر اس گروپ کے ذریعے جہانگیر خان کے پرانے دوست اس حکومت کی مشکیں کس سکتے ہیں تو سونے پر سہاگہ۔ جہانگیر ترین ایک مالدار شخص ہیں مگر اس وقت ان کا سب سے قیمتی اثاثہ یہ گروپ ہے جو ان کے قریبی ذرائع کے مطابق آئندہ انتخابات تک پھلتا پھولتا رہے گا۔

بشکریہ انڈپینڈنٹ نیوز