433

عید سے کشمیر، فلسطین تک

پالیسی یہ ہے کہ عوام کبھی یہ پہیلی نہ بوجھ پائیں کہ ان کے حکمران ان سے اپنی نوکریوں اور مراعات کے علاوہ کیا چاہتے ہیں؟ وہ کیوں ان کو ہر وقت بےوقوف بناتے رہتے ہیں؟ آخر ان دھوکوں، ڈھکوسلوں کا مقصد ہے کیا؟whatsapp sharing buttonsharethis sharing button

وزیر اعظم عمران خان ترقیاتی منصوبوں سے متعلق ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے (پی آئی ڈی)

مسئلہ صرف شک کے گہرے سایوں کا نہیں ہے کہ ہم سے شاید وحدت کے نام پر جبری عید کروا گئی۔ اس طرح 30 روزوں کی جگہ 29 ہوئے جس سے اس تمام روحانی اور جسمانی محنت کے پھل کا مزہ کرکرا ہوا۔

نہ ہی مسئلہ صرف ان کروڑوں گھریلو خواتین کا ہے جو نہ ڈھنگ سے عید کی تیاریاں کر پائیں اور نہ اپنے بچوں کو  مقدور بھر لاڈ و پیار دے پائیں۔ جو ایک حقیقی چاند رات کا خاصہ ہے۔ معاملہ اس سے کہیں بڑا اور گہرا ہے۔

قوم کو خواہ مخواہ کی ذہنی خلفشار میں مبتلا کرنے کی پرانی عادت اب ریاستی و حکومتی نظام کی پالیسی بن گئی ہے جس کی تباہی سے مقدس دن بھی ویسے ہی متاثر ہوئے ہیں جیسے خارجی، دفاعی، اندرونی و معاشی امور۔

یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم کسی ایسے افسانے  کے کردار بنا دیے گئے ہیں جو ہر دوسرے لمحے ہماری اجتماعی بیچارگیوں میں اضافہ کر کے لکھنے والے کی تسکین کا ذریعہ بنتا ہے۔

بھئی اگر امت سے جوڑنے کا شوق دوبارہ سے ابل رہا تھا تو رات کے ساڑھے گیارہ بجے سے پہلے ہی اس کی بھاپ کو نکلنے کا موقع فراہم کر دیتے۔

فجر سے چار گھنٹے پہلے چاند کی خبر دینا کہاں کی عقل مندی تھی؟ اور اگر عقل مندی تھی تو کس کے فائدے میں تھی؟ اور اگر شہادتیں اتنی باوزن تھیں کہ تمام نجوم کی سائنس کے تمام تجزیے ناقص ثابت ہو رہے تھے تو ان کو اکٹھا کرنے میں کیا اتنا وقت درکار تھا کہ جس میں ایک انتخابی حلقے کے لاکھوں ووٹ کی گنتی ہو کر نتیجہ سامنے آ جاتا ہے؟

کیوں قوم کو ایک بےفائدہ کشمکش اور اذیت میں مبتلا رکھا؟ دو خطبوں سے بچ کر چلنے والوں کا انجام بھی ہم نے دیکھا ہوا ہے۔

ایوب خان کے آخری سالوں میں ان کو جو عزت عوام کے ہاتھوں ملی وہ پڑھ لیں تو جان پائیں گے کہ اس طرح کے خود ساختہ عقائد کمزور اعصاب کو  سہارا دے سکتے ہیں مگر اعمال کے عذاب سے جان نہیں چھڑوا سکتے۔

نہ کوئی ننگے پاؤں چلنے سے زیادہ نیکیاں کماتا ہے اور نہ خود کو تواہم میں گھیر کر سیاسی تحفظ حاصل کر سکتا ہے۔ مگر چونکہ عوام کو طاقت کے تیزاب میں ڈبونا ایک وطیرہ بن چکا ہے لہذا کسی احتسابی خوف سے آزاد جس کا جو دل چاہے کر دیتا ہے۔

ایک دن خاموش سفارت کاری کے ذریعے امن کی خواہش کو اولین مقصد بتایا جاتا ہے مگر پھر ردعمل آنے پر اگست 2019 کے اقدامات کی واپسی سے بات چیت کو مشروط کر دیتے ہیں۔

جب دل چاہتا ہے عید کر دیتے ہیں جب دل میں آتا ہے روزے رکھوا لیتے ہیں۔ ضرورت پڑے تو چاند رات کے 12 بجے بھی دیکھ لیتے ہیں اور اگر اس کے برعکس مجبوری ہو تو آسمان پر اس کی واضح نشانیاں بھی ہضم کر جاتے ہیں۔

پالیسی موسمی بٹیرا ہے اور عوام کاٹھ کے الو۔ سالہا سال فلسطین کے مظالم کا تذکرہ نہیں ہوتا [اور اندر خانے اسرائیل سے رابطے بڑھانے کے لیے میڈیا مہم چلاتے ہیں] اور پھر جب بین الاقوامی خبریں بننے لگتی ہیں تو ٹوئٹر ٹارزن بن کر سوشل میڈیا کا محاذ سنبھال لیتے ہیں۔

اس مرتبہ کشمیریوں پر مظالم کا سرکاری حوالہ محض ضمنی رہا۔ نہ کوئی تفصیلی یکجہتی کا پیغام بھجوایا گیا اور نہ حوصلہ بندھانے کے لیے ڈٹ جانے کا خصوصی پیغام دیا۔

فلسطین کے ساتھ نتھی کر کے ایسے فرض نبھایا کہ جیسے 30روزوں کی عید 29 میں کی۔

چند سال پہلے تک برما کے روہنگیا مسلمانوں کو بچانے کا جوش موجیں مارتا سمندر تھا۔ آج کل بھول کر بھی تزکرہ نہیں ہوتا۔ برابر افغانستان میں مسلمان بچیوں کے پڑخچے اڑ جاتے ہیں تو بھی انسانی ہمدردی بس طے شدہ طریقہ کے تحت ہی ظاہر ہوتی ہے۔ پھیکی، دلچسپی سے خالی، کٹی پھٹی اور احتیاط مں لتھڑی ہوئی۔

کرونا کے خلاف جہاد بھی کچھ ایسے ہی چل رہا ہے۔ جب ماسک کی ضرورت تھی تب سینیٹائزر بنانے کی خوشخبریاں سنا رہے تھے۔ جب لاک ڈاؤن لازم تھا تب کاروبار کو بچانے کی فکر کھائے جا رہی تھی۔

اب جب سب کو ویکسین چاہیے تو سڑکوں پر فوج کو کھڑا کر کے بندش کے ذریعے وائرس سے لڑائی کر رہے ہیں۔ ایک لاکھ ویکسین منگواتے ہیں اور کروڑوں کو لگوانے کا کہتے ہیں۔

پہلے حفیظ شیخ کے ذریعے تمام ترقیاتی کاموں اور منصوبوں کا گلہ گھونٹا اور اب شوکت ترین کے ہاتھوں دوبارہ سے سرکاری ترقیاتی کاموں کو ’تیز رفتاری‘ سے چلانے کے اشتہارات کا اجرا کر رہے ہیں۔

پہلے بڑے منصوبے یعنی سڑکیں، پُل، شاہرائیں، عمارات وغیرہ کو ایک مجرمانہ فضول خرچی کے نام سے پکارتے اور اس کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے عبرتناک سزائیں اور انجام تجویز کر تے سنے جاتے اور اب ہر دوسرے روز ایک فیتہ کاٹ کر پاکستان کے بدلنے کی کہانیاں سناتے ہیں۔

سائیکل پر سوار وزیر اعظم کو دیکھنے والی آنکھیں ترس ترس کر پتھرا گئیں ہیں۔ پروٹوکول کی گاڑیاں ہیں کہ لائن ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔

یہ مثالیں لا اوبالی پن یا ناتجربہ کاری کا عکس نہیں ہیں۔ یہ عوام کے ساتھ نہ ختم ہونے والے اس تماشے کا حصہ ہیں جن میں روزانہ نئی ڈگڈگی بجا کر ان کو نچا کر اس طرح تھکا دیا جاتا ہے کہ وہ نہ سوال پوچھنے کی توانائی پا سکتے ہیں اور نہ جھوٹ کو پکڑنے کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہیں۔

وہ ہمیشہ منتشر الخیال رہتے ہیں۔ ان کو سمجھ ہی نہ آتی  کہ انہوں نے عید کرنی ہے یا روزہ رکھنا ہے۔ پالیسی یہ ہے کہ عوام کبھی بھی یہ نہ جان پائیں کہ بھارت سے دوستی کرنی ہے یا دشمنی؟ پس پردہ سفارت کاری اچھی ہے یا بری؟ ہو رہی ہے یا نہیں؟ کشمیر کو آزادی دینی ہے؟ آدھا بھارت کے ہاتھ میں رہنے دینا ہے؟ پورا اپنے ساتھ ملانا ہے؟

عوام کبھی فلسطینیوں کے حق میں بولیں اور پھر کبھی یہ سنیں کہ اسرائیل سے ہمارا براہ راست کوئی بڑا جھگڑا نہیں۔ وہ کبھی قائد اعظم کو شیروانی میں دیکھیں اور کبھی انگریزی سوٹ میں۔

وہ کبھی علامہ اقبال کو  جہادی نظریات کے داعی کے طور پر متعارف ہوتے ہوئے دیکھیں اور کبھی بطور ملائیت  کے نقاد کے۔

عوام کبھی یہ پہیلی نہ بوجھ پائیں کہ ان کے حکمران ان سے اپنی نوکریوں اور مراعات کے علاوہ کیا چاہتے ہیں؟ وہ کیوں ان کو ہر وقت بےوقوف بناتے رہتے ہیں؟ آخر ان دھوکوں، ڈھکوسلوں کا مقصد ہے کیا؟

بشکریہ انڈپینڈنٹ نیوز