463

مساجد کے دروازے خواتین پر کھولے جائیں

آپ کی طرح مجھے بھی نماز میں خدا کے سوا باقی ہر طرح کے خیالات ستاتے ہیں۔ اس دفعہ جب جمعہ کی نماز کے لئے کھڑا ہوا تو میرے ایک طرف بیٹا کھڑا تھا جب کہ دوسری طرف بیٹی تھی۔ آگے امام صاحب سورۃ فاتحہ کی تلاوت کر رہے تھے جب کہ پیچھے کھڑا میں سوچ رہا تھا آج میری بیٹی چھوٹی ہے سو ضد کرنے پر اسے مسجد لے آتا ہوں لیکن بہت جلد ایک وقت آئے گا جب ایسا ممکن نہیں ہو گا اور بے جا قسم کی پابندیوں کے باعث اسے عبادت کے لئے گھر پر ہی رہنا پڑے گا۔ غور کیجیے، یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ مذہب کے نام پر میری خود ساختہ پابندیاں اسے مذہب سے دور کرنے کا باعث بنیں گی۔ اور پھر دوسرے بہت سے لوگوں کی طرح میں بھی شکوہ کناں ہوں گا کہ ہماری عورتیں دین سے دور ہوتی جا رہی ہیں جب کہ اس میں سب سے زیادہ قصور تو خود میرا ہی ہو گا۔
اس حوالے سے جب ایک خاتون سے ملاقات ہوئی تو بتانے لگیں مجھے وہ خوبصورت دن یاد ہیں جب کبھی میں بھی اپنے باپ کے پہلو میں کھڑی جمعہ کی نماز ادا کیا کرتی تھی اور پھر مجھے بتایا گیا کہ اب تم بڑی ہو گئی ہو لہذا مسجد جانا قصۂ پارینہ ہوا۔ مزید کہنے لگیں کہ آج بھی کبھی کبھار دل میں مسجد جانے کی خواہش انگڑائی لیتی ہے لیکن ہمارے یہاں کا ماحول کچھ اس طرح کا ہو چکا ہے کہ ہم مسجد نہیں جا سکتیں۔
غور کرنے والی بات ہے کہ ویسے تو ہم مسجد کو مسلمانوں کی اجتماعی عبادت گاہ تصور کرتے ہیں جب کہ دوسری طرف عورتوں پر مشتمل اپنی آدھی سے زیادہ مسلم آبادی کو مسجد جانے سے ہی روک دیتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئیے تھا اگر ہم نے مذہب کے نام پر اپنی عورتوں پر ہر طرح کی تفریح حرام کر رکھی ہے تو کم از کم خدا کے گھر کے دروازے تو ان پر بند نہ کرتے لیکن ہوا یہ کہ ہم نے عورت پر اجتماعی عبادت میں شامل ہونے کی پابندی تو لگا دی جب کہ دوسری طرف ہماری عورتیں دوسری ہر جگہ پر جانے کے لئے آزاد ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ انہیں دوسری جگہوں پر جانے کی ممانعت ہونی چاہئیے بلکہ میرا صرف اور صرف یہ کہنا ہے کہ دوسری بہت سی جگہوں کے ساتھ ساتھ ان پر مساجد کے دروازے بھی بند نہیں ہونے چاہئیں۔
اکثر لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ عورتوں کو مسجد میں جانے کی آزادی تو ہے اور وہ وہاں مخصوص ماحول میں نماز ادا کر سکتی ہیں۔ لیکن کیا ان لوگوں نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ اس مخصوص ماحول میں تو ہماری ایک فیصد خواتین بھی مساجد کا رخ نہیں کرتیں لہذا یہ ایک فلاپ پریکٹس ہے۔ دراصل اس وقت مختلف مساجد میں خواتین کے لئے جو قواعد و ضوابط طے کیے گئے ہیں ایسے ماحول میں صرف مخصوص مائنڈ سیٹ کی حامل مذہبی خواتین ہی مساجد کا رخ کرتی ہیں اور ان میں بھی اکثریت ایسی خواتین پر مشتمل ہوتی ہے جو اپنے سخت گیر شوہروں کی اطاعت میں مساجد کا رخ کرتی ہے۔ دراصل میرا مدعا یہ ہے کہ مساجد کے ماحول کو مجموعی معاشرتی ماحول کے مطابق ڈھالا جائے تاکہ کالجز، یونیورسٹیز کی سٹوڈنٹس، ملازمت پیشہ خواتین کے ساتھ ساتھ ہماری عام خواتین بھی خوشدلی سے مساجد کا رخ کریں۔
اس حوالے سے چند ایک گزارشات پیش خدمت ہیں۔
مساجد سے علماء کی اجارہ داری ختم کی جائے کیوں کہ یہی وہ طبقہ ہے جو مساجد کو معاشرتی ماحول کے مطابق ڈھالنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور یہی بنیاد پرست لوگ خواتین کو دوسرے درجے کی اور کمتر مخلوق سمجھتے ہیں ان کے نزدیک خواتین کا گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے جدید تعلیم کی یونیورسٹیز کو بھی یہ لوگ اچھی جگہ نہیں سمجھتے لہذا جب تک یہ لوگ مساجد کے سیاہ و سفید کے مالک ہوں گے ہماری خواتین یہاں کا رخ کرنے سے کتراتی رہیں گی۔
مساجد سے پروفیشنلزم کا خاتمہ کیا جائے۔ علماء نے مساجد کو کمائی کا ذریعہ بنایا ہوا ہے جب کہ یہ ایک عبادت گاہ ہے۔ اور پروفیشنلزم کے خاتمے کے لئے پہلے مساجد سے مسلک پرستی کو ختم کرنا ہو گا کیوں کہ مسلک پرستی ہی کمائی کا سب سے آسان اور بڑا ذریعہ ہے۔
مسجد چونکہ مسلمانوں کی اجتماعی عبادت گاہ ہے لہذا اسے کمیونٹی سنٹر کے طور پر چلایا جائے۔ اس کی مثال ہم پنجاب کے قدیم شہروں میں "دارہ" ٹائپ اداروں سے لے سکتے ہیں۔ "دارہ" ایک ایسا ادارہ ہوتا ہے جو کہ عوامی ملکیت ہوتا ہے یہاں کسی کی اجارہ داری نہیں ہوتی اور علاقے کے عوام اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ہمیں مسجد کے ماحول کو بھی کچھ اسی طرح سے ڈیزائن کرنا ہو گا کہ وہ رفاہ عامہ کا باعث ہو۔ جب کی آج ہماری مساجد میں کچھ ایسی صورتحال ہے کہ اعلیٰ حضرت حاجی صاحب کے پاس مسجد کی چابی ہوتی ہے اور نماز ادا کرنے کے سوا عوام مسجد سے کسی بھی قسم کا فائدہ نہیں اٹھا سکتے خود چاہے حاجی صاحب رمضان میں اے سی کی ٹھنڈی ہوا لینے کے لئے دن رات ادھر ہی قیام کرتے ہوں۔
مساجد میں آنے والے لوگوں کے لئے ایسا اپنائیت بھرا اور دوستانہ ماحول ڈیویلپ کیا جائے کہ خوشگواریت کا احساس ہو اور ان کا بار بار آنے کا دل چاہے۔
مسجد خدا کا گھر ہے اور اس کا ایک تقدس ہے لیکن یہاں کا ماحول کچھ اس طرح کا ہونا چاہیے کہ لوگ مسجد کا احترام ایک محبت کرنے والے خدا کے گھر کے طور پر کریں۔ یعنی مسجد کے تقدس اور احترام میں کسی قسم کے خوف یا ڈر کا عنصر نہیں ہونا چاہئیے۔
محبت بھرے ماحول کے باعث ہی لوگ مساجد کی طرف لوٹیں گے ورنہ تو سنگی مساجد سے لوگ دور ہوتے جا رہے ہیں۔
خواتین کو مساجد میں حرم مکہ کی طرز کا ماحول فراہم کیا جائے اور کوشش کی جائے کہ منبر سے خواتین پر دشنام طرازی بند کی جائے بلکہ مناسب بات تو یہی ہے کہ مدارس کے علماء کی بجائے معاشرے کے دوسرے طبقوں سے علماء کو یہاں درس و تدریس کا موقع دیا جائے اور اس کے علاوہ عوام کو بھی گفت و شنید اور تقریر و خطاب کا مکمل حق دیا جائے۔
منبر سے مذہب کے نام پر غیر ضروری اور فروعی مسائل پر بات کرنے کی بجائے حالات حاضرہ سے متعلق اور عوامی دلچسپی والے موضوعات پر مفید ڈسکشنز کی جائیں۔
لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ مساجد میں عورتوں کی مداخلت سے بہت سے مسائل جنم لیں گے لیکن لوگ یہ نہیں سوچتے کہ یہاں تو بچوں کے ساتھ بھی بہت سے پرتشدد واقعات پیش آتے ہیں تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم معصوم بچوں کو مسجد آنے سے روک دیں۔ نہیں، بلکہ اس کا حل صرف اور صرف یہی ہے کہ ہم ان مجرمانہ عناصر کی بیح کنی کریں جو مساجد کے ماحول کو خراب کر رہے ہیں اور یہی اصول عورتوں کی مسجد میں مداخلت کے بعد پیش آمدہ حالات پر لاگو ہو گا۔
طوالت کے باعث بات کو یہیں پر ختم کرتے ہوئے عرض کروں گا کہ میری آراء کوئی حرف آخر نہیں ہیں میں بہت سی جگہوں پر غلط بھی ہو سکتا ہوں۔ لیکن چونکہ یہ ہمارا اجتماعی معاملہ ہے لہذا ہم سب کو اس حوالے سے غور و فکر کرنا ہو گا اور اپنی مفید اور قابل عمل آراء کو معاشرے کے تمام طبقات تک پہنچانا ہو گا اور مساجد میں خواتین کی شمولیت کو یقینی بنانے کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہو گا۔

بشکریہ اردو کالمز