میرے والد محترم(آغا) کی زبانی
یہ تب کی بات ہے جب میری پوسٹنگ بطور (ڈی ایس پی) خاران میں تھی اور کچھ عرب شہزادے ہمیشہ کی طرح خاران شکار کرنے کی غرض سے پڑاو ڈالے تھے۔ تو ڈیوٹی ان کے ساتھ تھی۔ شہزادے میرے ہم عمر (36 سے 38) سال اور کچھ شاید اس بھی چھوٹے تھے، تو ہم عمر ہونے کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان پر مکمل عبور ہونے کی وجہ سے بھی عرب شہزادے اکثر و بیشتر مجھ سے رابطے میں رہتے اور اس طرح مختلف عمور پر بات چیت بھی ہوجاتی۔
ایک دن شہزادے اپنے روایتی انداز میں (چاولوں کی بڑی سے تھالی میں گوشت) کھانا کھا رہے تھے ایسے میں مجھے بھی مدعو کیا میں نے شکریہ کہہ کر معذرت کی اور کہا کہ میں چونکہ آپ کی حفاظت پر مامور ہوں لہِذا آپ کھانا کھا لیں میں اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ بعد میں اپنی دال روٹی کھا لوں گا۔
اتنے میں ایک عرب شہزادے نے پوچھا کہ ینگ مین تم (نسلاً) کون ہو؟ تو میں نے جواب دیا "افغان" ہوں۔ عرب شہزادہ یک دم منہ چڑھا کر نخوت سے بولا کہ تم تو بڑے برے و ظالم لوگ ہو ہر وقت لڑتے رہتے ہو خون خرابہ کرتے ہو قتل و غارت کرتے ہو اور بس بولتا ہی رہا۔۔۔۔۔۔
مجھ پر یہ سب باتیں انتہائی ناگوار گزریں میری وردی و مہمان نواز طبعیت مجھے بولنے نہیں دے رہی تھی لیکن میرا اندر کا افغان مجھے چپ بھی رہنے نہیں دے رہا تھا۔ عرب شہزادے کی باتیں مجھ پر کسی انتہائی خطرناک بچھو کے ڈنگ کی طرح اثر انداز ہوئی تھیں۔ جب شہزادے نے کھانا کھا لیا تو میں نے ان سے اپنی ایک خواہش کا اظہار کرتے ہوئے درخواست کی کہ کیا آپ مجھے اپنے شکاری عقاب یا باز جو شکار کے غرض سے نہایت اہتمام سے پالے گئے تھے دکھانا پسند کریں گے؟ شہزادے نے خوشی سے کہا کیوں نہیں۔ اور مجھے اپنے عقاب دکھانے ایک قریبی خیمے میں لے گیا۔ وہاں 5 سے 6 عقاب موجود تھے جن کی آنکھیں چمڑے کی پٹیوں سے ڈھکی جبکہ پیر باریک لیکن مضبوط زنجیروں سے جھکڑے ہوئے تھے۔۔ میں نے شہزادے سے استفسار کیا کہ ان بے زبان پرندوں کو ایک تو خیمے میں قید کر رکھا ہے اور پھر مذید یہ کہ ان کی آنکھیں اور پر تک آپ لوگوں نے باندھ رکھے ہیں، آپ انہیں خیمے میں کھلا چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟ شہزادہ تعجب سے میری جانب دیکھتے ہوئے تمسخرانہ لہجے میں گویا ہوا کہ میں تو تمہیں بہت عقل مند سمجھ رہا تھا لیکن تم تو انتہائی بیوقوف معلوم ہوتے ہو، یعنی ہم ان پرندوں کو آپس میں کھلا چھوڑ دیں تاکہ یہ ایک دوسرے کے ساتھ ہی لڑ جھگڑ کو ایک دوسرے کو نوچ کھائیں ؟
یہ سن کر میرے لبوں پر بے اختیار مسکراہٹ آگئی اور میں نے عرب شہزادے کو متوجہ کرتے ہوئے کہا اگر غور کریں تو ہم افغان بھی کچھ مختلف نہیں مزاجاً ہم بھی انہی عقابوں جیسے ہیں۔ ہم آسمان پر ہوں تو اکیلے اڑان بھرتے ہیں کسی پر تکیہ نہیں کرتے۔ کبوتروں اور ممولوں کی طرح جھنڈ میں نا رہنا ہی ہماری انفرادیت کی علامت ہے۔ اور جب ہم زمین پر ہوں تو بھی شیروں اور بھیڑویوں کی طرح وقار سے رہتے ہیں، گیدوڑوں و بھیڑ بکریوں کی طرح محکوم بن کر رہنا ہمیں کبھی گوارا نہیں رہا۔
ہاں البتہ محترم شہزادے صاحب آپ کو بتاتا چلوں کہ جب میں کسی عرب کو دیکھتا ہوں یا اب تک یہاں جتنے عرب مہمان دیکھے ہیں ان میں کسی ایک شخص میں بھی ایسی خاصیت نہیں پائی بلکہ انہیں بیشتر عیاش، انتہائی آرام پسند، مغرور، خودپسند اور شخصیتی اعتبار سے کمزور ہی پایا ہے۔
میرے اس مکالمے کا فوری نتیجہ تو شہزادے کی خاموشی کی صورت میں نکلا لیکن اس کو کھری کھری سنانے کی پاداش میں بعد میں کافی عرصہ ملازمت سے معطل رہا۔
آج جب بھی عربوں اور افغانوں کی موجودہ صورتحال دیکھتا ہوں تو آغا (والد محترم) کا سنایا واقعہ جیسے آنکھوں کے سامنے بطور زندہ منظر چلنے لگتا ہے اور دل کہتا ہے کہ یہ تلخ ہی سہی لیکن آج بھی حقیقت ہے۔