صبح کے ساڑھے نو بجے سے ساڑھے دس بجے تک ایبین جنکشن کی عمارت میں محترمہ آنیا بنوات کی سرپرستی میں وزن کم کرنے کے عنوان سے ایک ورکشاپ کا انعقاد ہوا۔ محترمہ آنیا موریشس میں ایک مشہور ماہر غذا ہیں۔ اس ورکشاپ کا نصب العین حاضرین کو ایسی غذا کی طرف متوجہ کرنا تھا جو ان میں ایسی عادتیں پیدا کریں جن سے وہ تندرست رہیں۔
انسانی جسم کو کاربوہائیڈریٹ سے توانائی میسر ہوتی ہے۔ اس کی زیادتی غیر صحتمندانہ امرہے۔ غذا میں شامل شیرینی کاربوہائیڈریٹ کی ہی شکل ہے جو جسم میں گلوگوز میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ یہ ذہن اورعضلا کے لئے ایندھن کا کام انجام دیتی ہے۔ چاول، آٹا، روٹی، آلو، شکرقندی اور پاستہ میںکاربوہائڈریٹ پایا جاتاہے۔ ان اشیائے خوردو نوش سے جسم کوطاقت اور توانائی ملتی ہے۔ اگر یہ بنیادی خوراک جسم میں زیادہ مقدار میں پایا جائے تو صحت کو خطرہ ہوسکتا ہے۔ کینوا، جئی اور پھلی کے دانے کا بھی شمار نشاستہ دار غذا میں شامل ہے۔
وزن کم کرنے کے لئے لوگ طرح طرح کے نسخے آزماتے رہتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسی غذا اپناتے ہیں جس میں لحمیات کی مقدار زیادہ ہو۔ یہ کیٹو ڈائٹ کے نام سے مقبول ہے۔ کچھ لوگ صرف آش پر اکتفا کرتے ہیں۔ انٹرمیٹنٹ فاسٹنگ بھی آجکل خاصا مقبول ہے۔ چند افراد دن میں صرف چکوترا، کافی اور انڈے کھاتے ہیں۔ لیکن وزن کم کرنے کے لئے کھانا پینا بند کرنا مناسب نہیں۔
جدید دنیا کا فرد زیادہ تر ایک جگہ پر بیٹھا رہتا ہے۔ وہ کم جسمانی مشاغل میں ملوث رہتا ہے۔ تندرستی پانے کے لئے غذا، تازہ مشروبات خاص طور پر پانی اور نیند پوری کرنا ضروری ہے۔ آدمی کی عمر کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس کی غذا میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔ اس کے علاوہ خواتین کے مقابلے مردوں کو زیادہ خوراک کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ان کے جسم میں زیادہ عضلات پائے جاتے ہیں۔ نیز اگر ایک فرد زیادہ دبائو میں رہتا ہے تو اس کا وزن اثر پذیر رہتا ہے۔ جو لوگ کسی مرض کے شکار ہیں انہیں بھی وزن کم کرنے میں دقتیں پیش آتی ہیں۔ مثال کے طور پر ذیابطیس کے مریض انسولین لینے کی وجہ سے اپنے وزن پر قابو نہیں رکھ پاتے۔
عام طور پرخواتین کی کمر کے گردزیادہ چربی جمع ہوجاتی ہے۔ جو بھی ہوبشرکو خود سے محبت کرنے کی ضرورت ہے۔ خود میں کمی تلاش کرنے کی جگہ آپ جیسے ہیں خود کو ویسے ہی قبول کریں۔ محترمہ آنیا نے بتایا کہ پچھتر فی صد چربی سانس کے ذریعے جسم سے خارج ہوتی ہے۔ جسم سے جب کاربن دائی اکسائیڈ خارج ہوتا ہے تو اسی کے ساتھ ساتھ چربی بھی نکلتی ہے۔
کھانا کھانے کا صحت مند طریقہ ماہر غذا کے مطابق آدھی پلیٹ میں سبزیاں، سلاد اور دو یا تین پھلوں کو شامل کیا جاسکتا ہے۔ پلیٹ کے ایک چوٹھائی حصّے کولحمیات کے لئے مختص کریں۔ اس میں مچھلی، انڈے، مرغی ، گوشت، دودھ، جوز، بادام، مکھن، مونگ پھلی، کدو کے دانے اور تخم داودی شامل کرسکتے ہیں۔ ہفتے میں صرف چار یا چھ انڈے کھائیں۔ انڈوں کی زردی کھانا بہتر ہے کیونکہ اس میں اچھے حیاتین پائے جاتے ہیں۔ سمندری خوراک ہر دو ہفتے میں کھائی جا سکتی ہے۔ آپ کی پلیٹ کے دوسرے چوٹھائی میںکاربوہائڈریٹ جیسے چاول، آٹا، آلو، شکر قندی، بریڈ فروٹ یا کاساوا کے طور پر موجود ہونا چاہئے۔
جو کھانا جلدی تیار ہوتا ہے وہ جلدی ہضم بھی ہوتا ہے۔ ورکشاپ کے درمیان بتایا گیا کہ سویا بین تیل کا کم استعمال کیا جائے کیونکہ یہ ترمیم
شدہ کھانا ہے۔ ایک آدمی کے ایک وقت کے کھانے میں صرف دیڑھ چمچ سویابین تیل ہی مناسب ہے۔ ایک دن میں ایک چوٹھائی یا آدھا ایواکاڈو کھا سکتے ہیں۔ ماہرِ غذا کے مطابق باہر کا کھاناصرف ایک کاروبار ہے۔ فاسٹ فوڈ کا ذائقہ لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ لیکن ایسا کھاناصحت کو نقصان پہنچاتا ہے۔ سوال جواب کے دوران مندرجہ نکات کی طرف اشارہ کیا گیا:
سبز چائے وزن کم کرنے میں کرشماتی مشروب نہیں ہے۔ اس میں تکسید روک عناصرپائے جاتے ہیں۔
ناریل کو کدوکش کرکے، اسے شہد سے ملاکر ایک صحتمند خوراک تیار ہوتا ہے۔
آدمی کو کم سے کم سات گھنٹوں کی نیند پوری کرنی چاہئے۔
حیاتین ۔ ڈی پانے کے لئے ہر روز دس سے پندرہ منٹ دھوپ میں رہنابہت ضروری ہے۔ موسم سرما میںدھوپ میں پچیس مینٹ کے لئے رہنا مناسب ہے۔ جو خواتین پردہ کرتی ہیں ان کی جلد بعض اوقات سورج کی کرنوں سے محفوظ رہتی ہے۔ ان کے لئے سورج کی روشنی اور زیادہ مفید ہے۔
وزن کم کرنے کے لئے اپنی عادتوں میں تبدیلی لانا ضروری ہے۔ خود سے سوال کریں کہ آپ کس لئے وزن کم کرنا چاہتے ہیں؟ آپ اشیائے خورد و نوش کے ساتھ ایک صحت مند رشتہ اپنائیں۔ اس طرح آپ کو اپنی غذا سے تسلی ملے گی۔ آپ کو کوئی خوف نہیں ہوگا اور نہ ہی آپ کسی طرح کے احساسِ جرم کا شکار بنیں گے۔
785