188

رمضان اور ہمارے اعمال

 

رمضان المبارک کا مہینہ صبر کا مہینہ کہلاتا ہے۔اس ماہ مبارک میں مسلمانوں کیلئے صبر کی تلقین پر زور دیا گیا ہے۔یہ صبر مختلف شکلوں میں ہیں۔کھانے سے صبر،پینے سے صبر،جھوٹ بولنے سے پرہیز،جنگ جھگڑے سے پرہیز،زخیرہ اندوزی سے پرہیز،کسی مسلمان کو تکلیف پہنچانے سے پرہیز یعنی ہر وہ کام سے پرہیز ہے جس سے روزے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ہم ان سب کے خلاف جاتے ہیں۔دوسرے ممالک میں جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا ہے،تو غیر مسلم سمجھتے ہیں کہ اس میں مسلمان روزے رکھتے ہیں تو اس وجہ سے خوراک کی چیزیں سستے کرتے ہیں۔تاکہ مسلمان آسانی سے ہر چیز خرید سکے۔غیر مسلم کو اس بات کا احساس کہ رمضان مسلمانوں کا مہینہ ہے۔مسلمان پر ظلم بھی نہیں کرتے۔اب اس مسلمان کی بات کرتے ہیں جو روزے رکھتے ہیں ۔پاکستان میں جب رمضان قریب آتی ہے تو سب سے پہلے ہم مسلمان خوراک کی چیزیں مہنگے کرتے ہیں۔اور مہنگے اس لئے کرتے ہیں کہ ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ مسلمان کو اس چیز کی خریدنے کی ضرورت پیش ہوگی۔یعنی خاص طور پر مہنگائی پاکستان میں رمضان المبارک کی مہینے میں ہوتی ہے۔اس سے ہم آسانی سے اندازہ لگاسکتے ہیں ہم کتنے فیصد اچھے مسلمان ہے۔صحابہ کرام رمضان المبارک کی مہینے کی انتظار کر رہے ہوتے،کہ کب رمضان المبارک کا مہینہ آئے گا اور ہم عبادات کریں گے۔رمضان میں پہنچنے کیلئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگا کرتے تھے کہ یا اللہ ہمیں رمضان میں پہنچا دے تاکہ ہم تیری عبادت کریں۔ایک ہم ہیں کہ جب رمضان المبارک کی بات سنتے ہیں تو سب سے پہلے تو ہم پریشان ہوتے ہیں،کہ یہ مہینہ پھر سے آنے والا ہے۔ہم بہت دکھی نظر آتے ہیں۔اور بعض دفعہ تو کھلے عام کہتے ہیں کہ یہ مہینہ پھر سے کیوں آیا۔ہماری سب سے بڑی تباہی ہی یہی ہے کہ اس بابرکت مہینے کے آنے سے ہم پریشان ہوتے ہیں۔اس سال جو رمضان المبارک کا آیا ہے،بہت ہی آسان ہے۔دن بھی چھوٹے ہیں،موسم بھی بڑا خوشگوار ہیں۔ہم جہاں رہتے ہیں بے انتہا خوبصورت جگہ ہے۔مجھے تو حیرانی ہورہی ہے کہ اتنے خوشگوار اور اچھے موسم میں بھی کوئی بور ہوسکتا ہے۔ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اس میں صبر نہیں کرتے معمولی سے بات پر ایک دوسرے پر وار کرتے ہیں۔اور وار بھی ایسا کرتے ہیں کہ اسلحہ اور چاقو وغیرہ سے کرتے ہیں۔اس مہینے کے شروع شروع ہے ہمارے معاشرے میں دو افراد لقمہ اجل بنے۔ہمارے مسائل تو پہلے سے ہی ہیں۔مسائل سے ہم انکار نہیں کرسکتے۔ہم جس ملک میں رہتے ہیں،اس ملک نے ہمیں صرف مسائل سے دو چار کیا ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے۔لیکن ہم کیا کرسکتے ہیں بس صبر ہی کرسکتے ہیں۔پاکستان میں زندگی گزارنا ہی مشکل ہوگیا ہے۔یہ کریڈٹ ان سیاست دانوں کو جاتا ہے جو اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہیں۔پاکستان کے سیاستدانوں نے عوام پر زندگی ایسے تنگ کردی ہے جیسے دوزخ میں ہم زندگی گزار رہے ہیں۔کم سے کم اتنا تو دل میں رحم کرنی چاہئیں کہ یہ رمضان کا مہینہ ہے ہم اس میں عوام پر مہنگائی کا بوجھ توڑا کم کردیں گے،لیکن نہیں ان کے پیٹ نہیں بھرتے۔سیاستدانوں کے پیٹ نہیں بھرے اور عوام کے چمڑے اتار دئیے۔رمضان کا مہینہ ہم مسلمانوں کیلئے ایک خصوصی پیکیج ہوتی ہے۔اس میں ایک فرض نماز ستر نمازوں کے برابر ہوتے ہیں۔سنت فرض کے برابر ہوتے ہیں۔لیکن ہمیں زرا بھی ان باتوں کا احساس ہی نہیں ہے۔کبھی ہم نے سوچا ہی نہیں ہے کہ یہ کتنا بابرکت مہینہ ہے۔اس مہینے کی مقبولیت کے بارے میں ہم نے سوچا ہی نہیں ہے۔یہ مہینہ ہم بس صرف ایک بوجھ سمجھ کر گزارتے ہیں۔

بشکریہ اردو کالمز