123

اہل فلسطین کے پہاڑ جیسے حوصلے !!

ہفتہ 28 اکتوبر 2023کو اسرائیل نے سب سے بڑی جارحیت کی۔ سمندری' فضاء اور زمین سے میزائلوں کی بارش کرکے غزہ میں نہتے ' مظلوم ،بھوک اور پیاس کی شدت سے نڈھال 500 فلسطینوں کو جام شہادت نوش کرایا ۔ہم حیرت زدہ ہیں کہ دنیا کو کیا ہوگیا؟ کیا مغرب آخری فلسطینی شہری اور بچے کی شہادت کا انتظار کررہا ہے۔ دوسری طرف آفرین ہے اہل فلسطین کے جذبہ وطن پر انہیں بھوک' خوراک' رہائش اور اپنے پیاروں سے بچھڑنے کا غم نہیں وہ اسرائیل کو اپنی سرزمین پر کل برداشت کرتے تھے اور آئندہ بھی اس کا وجود برداشت نہیںکریں گے !! اسرائیل کی درندگی' وحشت اور خونین کھیل کو تیسرا عشرہ جاری ہے۔ اقوام متحدہ' سلامتی کونسل اور بڑی طاقتیں معلوم نہیں کیوں متحرک نہیں ہو رہیں ۔ ہمیں اغیار سے شکوہ ہے نہ اس سے کوئی توقع!!! دکھ اور قلق یہ ہے کہ او آئی سی' عرب لیگ اور وسائل سے مالا مال اسلامی ریاستیںاب تک اپنا وجود اور موجودگی ظاہر نہ کرسکیں ۔23 دن سے غزہ کے اطراف میں اسرائیل دندناتا پھر رہا ہے۔ میزائیلوں نے شہری آبادیاں اور ہسپتالوں کو خون سے نہلا دیا۔ تین ہفتوں میں سات ہزار کے قریب فلسطینی شہید کئے جاچکے ہیں۔ 10 ہزار زخمی جبکہ عمارتوں کے ملبے تلے دبنے والوں کی تعداد حیران کن ہے۔ اقوام متحدہ میں بیٹھی آج کی مہذب دنیا کے ''مہذب نمائندے ''اور ترجمان تین ہفتوں میں جنگ بندی نہ کراسکے!! امریکہ اور برطانیہ سمیت جن طاقتور ہاتوں نے اسرائیل کے خونین قدم روکنے تھے وہ اعلانیہ شیطان اور درندہ صفت اسرائیل کی طرف داری کررہے ہیں!کیا حیثیت رہ گئی او آئی سی اور عرب لیگ کی !!پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ نے اسرائیل کو فلسطین میں آباد کیا، 1947 کو اقوام متحدہ نے ووٹنگ کے ذریعے فصیلہ کیا کہ فلسطین کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا ایک عرب ریاست اور ایک یہودی ریاست جبکہ یروشلم (بیت المقدس ) کو بین الاقوامی شہر قرار دیا گیا اس طرح اقوام متحدہ کے فصیلے کے مطابق فلسطین میں 1948 میں اسرائیل کا قیام ہوا حالانکہ اس وقت عرب اکثریت جبکہ یہودی اقلیت میں تھے امریکہ اور سویت یونین نے اسرائیل کو فوری طور پر تسلیم کر لیا یہاں سے ایک بڑے تنازعہ بنا،مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کے خلاف گہری اور گھناؤنی سازش کی گئی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ جب ہٹلر نے 1943 میں جرمنی میں تباہی پھیلا کر یہودیوں کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا تب یہودیوں نے جہاز بھر کر انسانیت کے نام پر فلسطین میں پناہ لی ان کے جہازوں پر یہ عبارت رقم تھی کہ ہٹلر نے ہمارے گھر بار تباہ کردیے ہیں آپ ہماری امید کو نہ کچلنا تب فلسطینیوں نے انسانیت کے ناطے اسرائیلی باشندوں کو ہٹلر کے مظالم سے بچانے کے لئے مہمان بنایا،اور پناہ دی،آج وہی اسرائیلی فلسطینی مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہوئے ہیں اور مسلمانوں کو کچل رہے ہیں اور آج اسرائیلی دنیا کے بڑے دہشت گرد کے طور پر فلسطین میں مظالم کی المناک ،افسوس ناک تاریخ بنا رہا ہے جو ایک سیاہ باب تصور ہو گا کیونکہ اسرائیلی دہشت گردوں نے ہسپتال مساجد مدارس پر بمباری کر کے فاسفورس بم گرا کر پوری دنیا کے انسانیت کے علمبرداروں کے منہ پر طمانچہ رسید کیا ہے غزہ میں ہسپتال پر ہزاروں ٹن بم گرا کر ایک ہزار سے زائد مریضوں اور زخمیوں کو شہید کر دیا گیا ہزاروں زخمی ہوئے ہسپتال کے صحن میں لاشوں کے ڈھیر،کفن کم پڑ گئے ہسپتال کی عمارت ملبے کا ڈھیر بن گئی اس کے بعد بھی اسرائیلی طیاروں نے ہسپتال کے گرد و نواح میں ایک درجن سے زائد فضائی حملے کر کے فلسطینی مسلمانوں کو نشانہ بنایا ہے اب تک ساڑھے تین سو سے زائد مقامات پر فضائی حملے اسرائیل کی طرف سے کئے گئے ہیں اسرائیل نے غزہ میں محصور مسلمانوں کو جبری طور پر شمال سے جنوب کی طرف نکل جانے کا حکم دیا ہے اسرائیلی جارحیت سے اس وقت تک 60 فصید سے زاہد خواتین اور بچوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے اور یہ فلسطینی مسلمانوں اجتماعی طور پر سزا دی گئی ہے ۔ امریکہ اور فرانس نے اسرائیلی جارحیت کی غیر مشروط حمایت کر کے عسکری امداد دے کر اس فساد کو ہوا دی ہے ہزاروں فلسطینی مسلمانوں کے قتل عام کی ذمہ داری ان پر ہی عائد ہوتی ہے اسرائیلی کی بدمعاشی کا اندازہ ان کے ترجمان کے اس بیان سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ اسرائیل کے دفاع کے لیے اس کے ساتھ کھڑے نہیں ہیں تو آپ کے اخلاقیات کی تعریف میں کچھ خرابی ہے،انسانیت کی اخلاقیات کی دھجیاں اڑانے والوں کو اخلاقیات کا درس دیتے ہوئے شرم آنی چاہیے انسانیت کا خون کرنے والوں کو انسانیت کا نام لیتے ہوئے ہوئے بھی اپنے مردہ ضمیر سے سوال کرنا چاہیے کہ کیا ہم اخلاقیات کے انسانیت کے علمبردار دار ہیں یا قتل عام نسل کشی بچوں اور بے گناہ خواتین کو مریضوں کو زخمیوں کو موت کے منہ میں دھکیل کر جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے آج فلسطینی مسلمانوں پر مشکل وقت ہے اور وہ اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنے ہیں تو کل اسرائیل بھی نشان عبرت بنے گا دو ارب مسلمانوں کے نمائندے (مسلم حکمران) ہوش کریں خود کو متحد کریں اگر اب اتفاق اور یکجہتی کے چراغ روشن نہ کئے گئے تو آپس کی اتفاقی اور خلفشار سب کچھ بھسم کر دے گی۔ یاد رکھیں اسلام مخالف اور مسلمان دشمنی کی یہ آگ صرف فلسطین تک محدود نہیں رہے گی ،اس آگ کے اثرات پورے عرب بلکہ عالم اسلام کو برداشت کرنا پڑیں گے۔ کہاں ہیں وہ دانشور اور محقق جو اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کو وقت کی ضرورت قرار دے رہے تھے یقیناً ان تین ہفتوں میں ان نام نہاد دانشوروں کو اپنے سوالوں کا جواب مل گیا ہوگا ْ وہ دانش ور یہ بھی یاد رکھیں فلسطینی اپنی نہیں مسلمانوں کی بقاء کی جنگ لڑے رہے ہیں۔ اسرائیل محبت سے سرشار دانشور صہونی تعلقات سے نہیں دو ارب مسلمانوں کے لیے سلامتی کونسل کی مستقل نشست کے لیے لابنگ کریں انہوں نے اب سنہری موقع ضائع کر دیا تو امریکہ اور برطانیہ کا پوٹل (پھٹو ) بھارت ویٹو ممالک شامل ہوسکتا ہے۔ سعودی عرب ' ترکی' ایران اور پاکستان کو انقلاب آفرین اقدامات کے لیے فوری آگے بڑھنا ہے ۔ فلسطین کو ہماری ضرورت ہے احتجاج' مطالبات اور دعائیں سب اپنی جگہ مگر جن کے پاس وسائل اور اختیار ہیں وہ خود کو مطالبات اور قراردادیں منظور کرانے تک محدود نہ رکھیں آگے بڑھیں اور قیادت کریں!!

بشکریہ اردو کالمز