229

پاکستانی سرزمین پر آگ کے الائو کی تیاریاں (1)

میرے سامنے اس وقت امریکی ایوانِ بالا اور ایوانِ نمائندگان پر مشتمل سب سے بڑے ادارے کانگریس کو 28 مارچ 2003ء اور 4 اپریل 2003ء کو پیش کی جانے والی دو رپورٹیں رکھی ہیں۔ دونوں کا تعلق پاکستان سے ہے۔ پہلی رپورٹ کا عنوان ہے ’’پاکستان امریکہ: دہشت گردی کے خلاف تعاون‘‘ (Pakistan-US: Anti Terrorism Co-operation) اور دوسری رپورٹ کا عنوان ’’پاک امریکہ تعلقات‘‘ (Pakistan- US Relations) ہے۔ دوسری رپورٹ کو 3 جولائی 2003ء کو مزید شواہد کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔ یہ دونوں رپورٹیں ہماری اس اٹھارہ ماہ کی ’’کارکردگی‘‘ سے متعلق ہیں جو ہم نے اکتوبر 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد ’’امریکی غلامی‘‘ کے لئے دکھائی تھی۔ امریکہ کے لئے ہماری ان ’’لازوال قربانیوں‘‘ کی وجہ سے ہی امریکہ اس قابل ہوا کہ وہ افغان ملتِ اسلامیہ کا خون بہا کر اکتوبر 2004ء میں افغانستان میں ایک نام نہاد الیکشن کروا کر حامد کرزئی کی کٹھ پُتلی حکومت قائم کر سکے۔ یہ اٹھارہ ماہ اس مملکتِ خدادادِ پاکستان کے لئے غضب کے تھے۔ افغان طالبان تو امریکہ سے جنگ لڑ رہے تھے۔ وہ امریکہ جو ان کے ملک پر قابض تھا اور انہیں اس بات کا مکمل اطمینان تھا کہ وہ عالمِ کفر کے سب سے بڑے طاغوت سے لڑ رہے ہیں۔ طالبان کو یقین کی حد تک ایمان تھا کہ وہ اس دنیا میں کامیاب ہوں یا نہ ہوں، آخرت میں ان کی کامیابی یقینی ہے۔ لیکن میرے ملک پاکستان کو جس جہنم میں دھکیلا گیا اس میں کسی ایک شخص کو بھی یہ اطمینان نہیں تھا کہ وہ جس جنگ کا ایندھن بن رہا ہے اس میں اُخروی نجات یا کوئی صلہ بھی ملے گا یا نہیں۔ ان ابتدائی اٹھارہ ماہ میں امریکی افواج کو فراہم کی گئی ہر طرح کی مدد اور سہولت ہی تھی جس کے نتیجے میں پاکستان پورے بیس سال آگ اور خون میں نہاتا رہا۔ ہم نے خوب مال کمایا۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ گیارہ ستمبر کے بعد امریکی امداد میں دس گنا اضافہ ہوا۔ گذشتہ سال یعنی 2001ء میں امریکہ نے پاکستان کو صرف ایک کروڑ ڈالر امداد دی تھی، جبکہ 2002ء میں یہ امداد ایک دَم ایک ارب ڈالر سے زیادہ تک بڑھا دی گئی۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ نے پاکستان کو جو کم شرح سود پر ایک ارب ڈالر دے رکھے تھے انہیں ختم کر دیا گیا۔ کانگرس کے 108 ویں اجلاس میں جب یہ رپورٹ پیش کی گئی تو ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ بش انتظامیہ چاہتی ہے کہ 2003ء کے باقی ماندہ سال کے لئے پاکستان کو 30 کروڑ ڈالر اور 2004ء کے لئے 41 کروڑ ڈالر کی امداد دی جائے۔ یہ وہ ’’کل قیمت‘‘ تھی جو ہم نے ان اٹھارہ ماہ کی ’’غلامانہ کارکردگی‘‘ سے حاصل کی۔ ہم نے اتنا کچھ کیا کہ جس کی امریکہ کو بھی ہم سے توقع نہیں تھی۔ امریکی سی آئی اے کا سربراہ جارج ٹینٹ (George Tenet) کہتا ہے کہ جب صدر بش کی صدارت میں وائٹ ہائوس کے اوول (Oval) آفس میں طویل میٹنگ ختم ہوئی تو ہم نے پاکستان سے مطالبات کی ایک سات نکاتی فہرست مرتب کی۔ ہمارا اندازہ تھا کہ پاکستان ان مطالبات میں سے دو یا زیادہ سے زیادہ تین مطالبات مان لے گا۔ لیکن ہماری حیرت کی اس وقت انتہاء نہ رہی، جب پرویز مشرف نے ہمارے سات کے سات مطالبات مان لئے۔ کئی سال بعد ان مطالبات کو ماننے کا یہ جواز دیا گیا کہ ہمیں دھمکی دی گئی تھی کہ اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو تمہیں کھنڈر بنا دیا جائے گا۔ لیکن اس کئی سال بعد بولے گئے جھوٹ کی قلعی جنرل محمود نے کھول دی۔ مجھے ایک طویل انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ مجھے امریکہ کے پاس خفیہ ایجنسیوں کی سطح پر امداد حاصل کرنے کے لئے کشکول دے کر بھیجا گیا تھا، مجھ سے پہلے وزیر خارجہ عبدالستار کا ایسا ہی مشن ناکام ہو چکا تھا۔ جارج ٹینٹ نے دس ستمبر 2001ء کو جنرل محمود کو صاف اور کورا جواب دے دیا، لیکن اگلے ہی دن جب گیارہ ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ ہوا تو جیسے دنیا ہی بدل گئی۔ ٹھیک ایک دن بعد جنرل محمود جب جارج ٹینٹ سے اس سانحے کے بارے میں افسوس کرنے سی آئی اے ہیڈ کوارٹر گئے تو کہتے ہیں کہ یوں لگتا تھا کہ جیسے وہ کشکول جو میں پاکستان سے ہاتھ میں لے کر گیا تھا، اب امریکیوں کے ہاتھ میں آ گیا ہو۔ امریکی سوال کر رہے تھے کہ آپ ہماری کیسے اور کہاں تک مدد کر سکتے ہیں۔ کسی چھوٹے سے چھوٹے امریکی اہلکار نے بھی ہمیں کبھی دھمکی نہیں دی، بلکہ ان کا روّیہ ہی ’’ملتجیانہ‘‘ سا تھا کہ ہم ان کی اس عالمی شرمندگی کو مٹانے میں ان کا کتنا ساتھ دے سکتے ہیں۔ لیکن جنرل مشرف کے اندر جو ’’فدویانہ‘‘ جذبات تھے ان کی وجہ سے پاکستان امریکہ کے سات مطالبات ماننے پر فوراً تیار ہو گیا۔ رپورٹ ہماری کارکردگی بتاتے ہوئے اس کا آغاز جنرل مشرف کی جنوری 2002ء کی تقریر سے کرتی ہے جسے وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک سنگِ میل (Land mark) بتاتی ہے۔ اس تقریر میں مشرف نے پہلی دفعہ پاکستانی معاشرے کو ایک مذہبی شدت پسند اور عدمِ برداشت والا معاشرہ ثابت کیا تھا اور ساتھ ہی امریکہ کو اپنی وفاداری دکھانے کے لئے لشکرِ طیبہ اور جیش محمد جیسے گروہوں پر پابندی لگا دی تھی۔ ان دونوں گروہوں کا افغانستان سے کوئی تعلق نہیں تھا، بلکہ یہ تو کشمیر جہاد کے لئے سرگرم عمل تھے۔ اس تقریر سے ایک ماہ پہلے ہی افغانستان میں امریکہ اپنے قدم جما چکا تھا اور امریکی حکام کے مطابق القاعدہ اور دیگر مجاہدین نے اپنا مرکز تیزی سے پھیلتے ہوئے شہر کراچی کو بنا لیا تھا۔ مشرف نے اس تقریر کے بعد پاکستان میں ایف بی آئی (F.B.I) اور سی آئی اے کے اہل کاروں کو پاکستان میں افواجِ پاکستان کے ساتھ شانہ بشانہ ایسے غیر ملکیوں کو پکڑنے کی اجازت دے دی جو افغان جہاد میں شریک تھے یا وہ پاکستانی جن پر سہولت کاری کا شک تھا۔ رپورٹ کے مطابق پہلی بڑی کامیابی مارچ 2002ء کو فیصل آباد میں ہوئی جب امریکی سی آئی اے کی ٹیم اور پاکستانی حکام نے مل کر کارروائی کرتے ہوئے القاعدہ کے کمانڈر ابو زبیدہ کو گرفتار کیا۔ اس گرفتاری نے امریکی شبہات پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی اور گھبرائی ہوئی مشرف انتظامیہ نے فیصل آباد اور لاہور سے 26 مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا۔ اب ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ لشکرِ طیبہ اور جیش محمد جن پر پابندی لگائی گئی تھی ان کے اہم افراد کو 8 جون 2002ء کو گرفتار کیا گیا، دس جولائی کو کوہاٹ اور حیدر آباد سے ایک درجن عرب مجاہدین، اگست میں حرکت المجاہدین کے بارہ مشتبہ افراد، ستمبر میں رمزی الشیبہ کو گرفتار کیا گیا اور اس کے ساتھ ہی دس مزید مشتبہ افراد بھی حراست میں لئے گئے، اکتوبر میں پشاور کے مہاجر کیمپ سے گرفتاریاں ہوئیں اور دسمبر میں امریکی حکام پاکستانی اہلکاروں کے ہمراہ جنوبی وزیرستان میں جا گھسے اور وہاں سے دو قبائلی سرداروں کو پکڑ کر انہیں کابل میں امریکی حکام کے حوالے کر دیا گیا اور یوں یکم مارچ کو اُسامہ بن لادن کا خاص معتمد خالد شیخ محمد بھی پکڑا گیا۔ صرف اس ایک سال میں 442 افراد کو القاعدہ سے تعلق یا شبے میں پکڑا گیا، 346 کو امریکیوں کے حوالے کیا گیا، اور پچاس چھوڑ دیئے گئے۔ (جاری ہے)

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز