163

رسول اللہ کا پھول۔ جنتی نوجوانوں کے سردار۔ شہیدِ کربلا

 

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ
 حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں
تاریخ انسانیت کا سب سے بڑا سانحہ جو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا
حضرت امام حسین ؓکی ولادت باسعادت ہجرت کے چوتھے برس مدینہ منورہ میں ہوئی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ ؓکی پیدائش کی خوشخبری سنائی گئی تو آپؐ  بہت خوش ہوئے اورحضرت فاطمہ ؓ کے گھرتشریف لے گئے۔آپؐ نے  نومولود حضرت حسین ؓ کو گود میں اٹھالیااور کانوں میں اذان دی پھرنبی کریم ؐ نے اُن کے منہ میں اپنا مبارک لعابِ دہن داخل فرمایا،آپؓ کے لئے دعا فرمائی اور آپؓ  کا خوبصورت نام”حسین ؓ “رکھا۔آپؓ کے القاب سبط ِرسول اللہ یعنی رسول اللہ کے نواسے اوریحانۃ ُالرسول یعنی رسول خدا کے پھول ہیں۔حضرت سعد بن مالک سے مروی ہے کہ  رسول اللہؐ نے فرمایاکہ”حسن اور حسین میرے دو پھول ہیں۔“(کنزالعمال)
نبی کریمؐ  کو حضرت حسین ؓ سے بے حد محبت تھی آپؐ  کاا رشاد مبارک ہے کہ”حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں۔“(ترمذی)ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا کہ”جس نے حسنؓ اور حسینؓ سے محبت کی،اس نے درحقیقت مجھ سے محبت کی اور جو ان دونوں سے بغض رکھے گا،وہ دراصل مجھ سے بغض رکھنے والا ہے۔“(البدایتہ والنہایتہ ج 8ص208) حضرت امام حسین ؓ  کا جسم پاک رسول اللہ ؐ کے جسد اطہر کے مشابہ تھا۔امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ”حسنؓ سر سے لے کر سینہ تک نبی کریم ؐ سے مشابہہ تھے اور حسینؓ سینہ سے لے کر قدموں تک آپؐ کے ساتھ بہت مشابہت رکھتے تھے۔“(ترمذی)
حضرت امام حسین ؓ نے تقریبا سات سال تک اپنے نانا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر سایہ پرورش پائی،آپؓ بے حد عبادت گذار،متقی،پرہیزگار،مہمان نواز،صبر وتقویٰ کے حامل اور غریب پرور تھے۔آپؓ کے صاحبزادے حضرت علی زین العابدینؒ فرماتے ہیں کہ”حضرت حسینؓ دن رات میں ایک ہزار نفل پڑھا کرتے تھے۔(سیرت الصحابہؓ)مروی ہے کہ آپؓ نے پچیس حج پیدل ادا کئے۔(ابن عساکر)ایک مرتبہ آپؓ اپنی سواری پر تشریف لے جارہے تھے کہ راستے میں مساکین بیٹھے ہوئے تھے جو بچے کچے ٹکڑے کھا رہے تھے جب آپؓ نے مساکین کو سلام کیا تو انھوں نے آپؓ  کوکھانے کی دعوت دی۔آپؓ اپنی سواری سے نیچے تشریف لے آئے اورمساکین کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا پھر آپؓ مساکین کو اپنے گھر دعوت پر لے گئے اور انھیں کھانا کھلایا،کپڑے اور درہم عطا فرمائے۔(حسن اخلاق،ص63)  
حضرت علّامہ جامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ”حضرت امامِ حُسینؓ کی شان یہ تھی کہ جب اندھیرے میں تشریف فرما ہوتے تو آپ ؓکی پیشانی اور رخسار مبارک سے انوار نکلتے اور اطراف روشن ہو جاتے(شواہد النبوۃ فارسی، ص228)
ایک موقع ایسا آیا کہ نبی کریم ؐنے حضرت امام حسینؓکی وجہ سے اپنے سجدے کو لمبا کردیا، امام نسائی نے حضرت عبداللہ بن شداد ؓسے روایت کو نقل کیا ہے کہ نبی اکرمؐ عشاء کی نماز کے لئے ہمارے ہاں تشریف لائے تو حضرت حسن ؓ اورحضرت حسینؓ کو اٹھائے ہوئے تھے،آپؐ نے انہیں بٹھادیا پھر نماز کے لیے تکبیر فرمائی اور نماز ادا کرنے لگے،حضرت عبداللہ بن شدادؓ کہتے ہیں کہ دوران نماز جب آپؐ نے لمباسجدہ کیاتو میں نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حالت سجدہ میں ہیں اور آپؐ  کی پشت انور پر حضرت حسینؓ سوار ہیں، میں پھر سجدہ میں چلا گیا۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو صحابہ کرامؓنے عرض کیا”یارسول اللہ،آپ نے نماز میں سجدہ اتنا طویل فرمایا کہ ہمیں گمان ہواکہ کوئی حکم الٰہی واقع ہوگیا ہے یا آپؐ پر وحی نازل ہونے لگی ہے، حضور اکرم ؐنے ارشاد فرمایا کہ اس طرح کی کوئی بات نہیں سوائے یہ کہ میرا بیٹا مجھ پر سوار ہوگیا تھا اس لئے مجھے سجدے سے اٹھنے میں جلدی کرنا اچھا نہ لگا جب تک وہ اپنی خواہش سے نہ اترتے۔(نسائی)
حضرت جابر  ؓ فرماتے ہیں کہ میں آقاؐ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؐ نے حضرت امام حسینؓ اور حضرت امام حسنؓ  کو اپنی پشت مبارک پر بٹھاکر ہاتھوں اور گھٹنوں پر چل رہے تھے،میں نے کہا سواری کتنی اچھی ہے تو آپؐ نے فرمایا  سوار کتنے اچھے ہیں۔(کنزالعمال)
رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ آپ کو اہلِ بیت میں سے کس سے سب سے زیادہ محبت ہے؟ تو آپؐنے فرمایا کہ”حسن و حسین سے“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہؓ  کو فرماتے کہ میرے بچوں کو میرے پاس بلاو،، پھر آپؐ انہیں چومتے اور سینے سے لگاتے۔“ (ترمذی: ۳۷۷۲)
حضرت ابوبریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں خطبہ ارشاد فرمارہے تھے کہ اچانک حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓسرخ قمیصوں میں ملبوس گرتے پڑتے آرہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اُترے، دونوں کو اُٹھالیا اور اپنے سامنے بٹھالیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے آزمائش ہے، میں نے ان بچوں کو دیکھا کہ گرتے ہوئے آرہے ہیں تو مجھ سے رہا نہیں گیا، حتیٰ کہ میں نے اپنی گفتگو روک کر اُنہیں اٹھایا۔“(جامع ترمذی: ۳۷۷۴)
حضرت یعلٰی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ”وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک دعوتِ طعام پر گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے آگے آگے چل رہے تھے، آپ نے دیکھا کہ حسین ؓبچوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں پکڑناچاہا تو وہ ادھر اُدھر دوڑنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اُن کو پکڑنے کے لیے دوڑ کر خوش طبعی کرنے لگے حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں پکڑ لیا، پھر اپنا ایک ہاتھ اُن کی گدی پر رکھا اور دوسرا ٹھوڑی کے نیچے رکھا اور ان کے دہن طیب پر اپنا دہن مبارک رکھ کر چومنے لگے اور فرمایا کہ، حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں اور اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتے ہیں جو حسین سے محبت کرے۔“(المستدرک للحاکم)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم ؐ نے حضرت فاطمہؓ سے فرمایا کہ کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تم جنت کی عورتوں کی سردار ہو اور تمھارے بیٹے جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔(کنزالعمال)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے لاڈؒے نواسہ حضرت امام حسین ؓ کی شہادت کے بارے میں پہلے سے ہی علم ہوگیا تھا۔ ایک مرتبہ حضرت سیدنا جبریل امین علیہ السلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھے کہ حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ بھی آگئے اور آپؐ  کی مبارک گود میں بیٹھ گئے۔ جبریل امین علیہ السلام نے عرض کیا”آپ ؐ  کی اُمت آپ ؐکے اس بیٹے کو شہید کردے گی۔“ جبریل امین  علیہ السلام نے بارگاہ رسالت میں مقامِ شہادت کا نام بتاکر وہاں کی مٹی بھی پیش کی۔ (معجم کبیر، 3 / 108، حدیث: 2817 ماخوذاً)
سن60ہجری میں جب یزید تخت پر بیٹھا تو لادینیت،ظلم و جبر،ناانصافی، فسق وفجور اور عہد شکنی پر مبنی دور شروع ہوا،یزید نے طاقت کے زور پراپنے حق میں جبری بیعت لینا شروع کردی اہل کوفہ حضرت امام حسینؓ کو خطوط لکھ کر اصرار کرتے رہے کہ آپؓ کوفہ تشریف لے آئیں تاکہ ایک کوفہ آپؓ کے ہاتھ پر بیعت کرسکیں۔اہل کوفہ کے بے حد اصرار پر جن حضرت امام حسین ؓ اپنے اہل و عیال اور خاندان کے ہمراہ کوفہ کی جانب روانہ ہونے لگے تو صحابہ کرام ؓ نے آپؓ کو روکنے کی کوشش کی کیونکہ وہ اہل کوفہ کی بے وفائیوں کو اچھی طرح جانتے تھے۔حضرت امام حسین ؓنے فرمایا”میں نے اپنے نانا کو خواب میں دیکھا ہے، حضورؐ نے مجھے تاکید کے ساتھ اس کام کو کرنے کا حکم دیا ہے، اب یہ کام ضرور کروں گا، خواہ مجھے نقصان ہو یا فائدہ۔“ لوگوں نے آپؓ سے خواب کی تفصیل جاننی چاہی تو آپ ؓنے فرمایا”میں نے یہ خواب کسی کو نہیں بتایا اور نہ بتاؤں گا یہاں تک کہ اپنے پروردگار عزوجل سے جا ملوں گا“(ابنِ اثیر، البدایہ والنہایہ)۔
کوفہ کے صحرامیں جب حق و باطل کا معرکہ شروع ہوا توآپؓ اپنے ناناکے دین کو بچانے کی خاطرخاندان اور رفقاء کی قربانیاں پیش کرنا شروع کردیں آخر میں لختِ جگرعلی اکبر ہاتھ میں تلوار پکڑے آگے بڑھے اور دلیری سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔ شیرخوار شہزادے علی اصغر کی شہادت کے بعد حضرتِ حُسینؓ تنہا رہ گئے لشکرِ یزیدی نے چاروں جانب سے آپؓ  کو گھیر لیا لیکن آپؓ کی تلوار یزیدی لشکر کے سر قلم کرتی رہی جب کہیں دُور سے اذان کی آواز سنائی دی تو حضرت امام حُسینؓ نے ہاتھ روک لیا اور نماز پڑھنے کی مہلت مانگی اسی لمحہ ملعون شمر کے کہنے پر مالک کندی نے آپؓ پرتلوار سے وارکردیا، تلوار کلاہِ مبارک کو کاٹتی ہوئی کاسہ سَر تک پہنچ گئی اورخون کا فوّارہ پھوٹ پڑا۔ آپؓ نے زخمی سَر مبارک پر دوسرا عمامہ باندھ لیا۔ ہزاروں یزیدی فوج کے لشکر کے حصار میں حضرت امام حسینؓ اکیلے ان کا مقابلہ کررہے تھے آپؓ کے جسمِ اطہر زخموں سے بھر گیا لیکن تلوار نہ رکی آخر شمر ملعون نے دھاڑ کر کہا”مل کر حملہ کرو“ آپؓ پر تیروں کی بوچھاڑ کردی گئی،ایک تیر گردن پر پیوست ہوگیا جسے آپؓ نے اپنے ہاتھوں سے کھینچ کر نکالا اور مقابلہ کرنے لگے،یزیدی لشکر پر ہیبت طاری تھی پھر ایک سنگ دل اور شقی القلب سنان نے آپؓ کے سَر مبارک کو جسمِ اطہر سے جدا کردیا اور آپؓ  شہید ہوگئے۔علّامہ ابنِ جوزی نے”تذکرۃ الخواص“ میں لکھا ہے کہ”آپ ؓکے جسمِ اطہر پر 33زخم نیزوں کے اور 43 زخم تلواروں کے تھے اور آپ ؓکے پیرہن شریف پر 121سوراخ تیروں کے تھے۔ یہ تمام زخم،جسمِ مبارک کے اگلے حصّے میں تھے، پشت مبارک کی جانب کوئی زخم نہ تھا“ (جامع التواریخ)۔حضرت امام حسین ؓ نے دین کی حفاظت کے لئے جس طرح لازوال قربانیاں دیں وہ تاریخ انسانیت میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔تحریر لکھتے ہوئے کوئی غلطی ہوگئی ہو تو اللہ کے حضور معافی کی طلب گار ہوں۔
اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے گھر والوں کو بیماریوں ،مشکلات اور مصیبتوں سے محفوظ رکھے آمین
دعا گو ! ماں جی اللہ والے  

بشکریہ اردو کالمز