1269

*باہمت اور بے ہمت لوگ*

 کسی گاؤں میں ایک دانا بزرگ کی حکمت و دانشمندی کا چرچا دور دور تک پھیلا ہوا تھا۔ ہر خاص و عام آپنی اُ لجھنیں سلجھانے ان کے پاس جاتا اور وہ ہر مسئلے کا حل فوراً بتا  دیتے۔ اُسی گاؤں میں چند شرارتی لڑکے بھی رہتے تھے، وہ بھی بزرگ کے پاس کبھی کبھار مسئلے کے حل کیلئے جاتے تو ہر بار اُن کو بزرگ کی طرف سے ایسے درست جواب مل جاتے کہ وہ حیران ہوکر رہ جاتے۔ اُن شرارتی لڑکوں نے ایک دفعہ بزرگ کو غلط ثابت کرنے کا منصوبہ بنایا۔ بڑی سوچ و بچار  کے بعد اُن کے ذہنوں میں ایک چال سوجھی کہ اُن میں سے ایک لڑکا اپنی مٹھی میں ایک چڑیا لے جاکر اُس بزرگ سے یہ پوچھے گا کہ آیا یہ چڑیا زندہ ہے یا مردہ۔ اگر بزرگ نے کہا کہ زندہ ہے تو وہ فوراً اپنی مٹھی زور سے دبا کر چڑیا مار دے گا اور اگر انہوں نے جواب دیا کہ چڑیا مردہ ہے تو وہ فوراً اپنی مٹھی کھول کر چڑیا کو اُڑا دے گا۔ یوں ہر دو صورتوں میں بزرگ جھوٹے ثابت ہوجائیں گے اور وہ اپنی چال میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اب لڑکے بزرگ کے پاس آئے۔ ایک لڑکے نے پوچھا کہ بابا میرے مٹھی میں ایک چڑیا ہے آپ بتا سکتے ہے کہ یہ زندہ ہے یا مردہ؟ دانا بزرگ نے لڑکوں کے چہرے پر نگاہ ڈالی، ہلکا سا مسکرائے اور بڑے اطمینان واعتماد سے جواب دیا، بیٹا پرندہ تمہارے ہاتھ میں ہے اور تمہیں اختیار حاصل ہے کہ تم اسے ماردو یا زندہ رکھو۔ وہی کچھ ہوگا جو تم چاہوگے۔ اس حکایت کا حاصل درس یہ ہے کہ زندگی میں ہمیں جو بھی کامیابی یا ناکامی ملتی ہے اُ سکا دارومدار ہمارے اپنے انتخاب پر ہے اور یہ انتخاب ہمارے ذاتی فیصلوں اور ہمت کے تابع ہوتی ہے۔ 

دنیا میں دو طرح کے لوگ موجودہیں: باہمت اور بے ہمت۔ باہمت لوگ اپنے مقاصد کے حصول کیلئے ہر وقت ہمہ تن گوش اور ہر لحظہ متحرک رہتے ہیں۔ یہی وہ رجال کار ہیں جو ہر شعبہء کار میں نمایاں کارنامے سر انجام دیتے ہیں، تبدیلوں کے نقیب بنتے ہیں، دوسروں کیلئے ایک مثال بنتے ہیں غیر یقینی حالات میں بھی آگے بڑھنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ مصائب سے خوفزدہ اور متزلزل نہیں ہوتے اور رکاوٹیں عبور کرتے چلے جاتے ہیں۔

اسکے مقابل بے ہمت لوگ اپنے مقاصد کے حصول سے غافل اور کچھ کرنے کے جذبے سے عاری صرف خواہش پرست ہوتے ہیں۔ یہ لوگ شارٹ کٹ کی تلاش میں رہتے ہیں اور اس اُمید پر بیٹھے ہوئے ہیں کہ کسی دن قسمت کی دیوی اُن پر مہربان ہوکر اُنہیں کامیاب بنادے گی۔ یہ لوگ حرکت نہیں کرتے اور اکثر وقت   اپنے بے بسی کا رونا رونے، شکوے شکایت کرنےاور دوسروں کی غیبت  کرنے میں گزار لیتے ہیں۔ خاص کر متحرک، مستعد اور باہمت لوگوں سے ناراض ہوکر حسد کا شکار بھی رہتے ہیں۔ ان لوگوں کی مثال ان افراد کی ہیں جو کسی اسٹاپ پر کھڑے کامیابی کی اس بس کے منتظر رہتے ہیں جو کبھی وہاں سے گزرتی نہیں ہے۔

باہمت لوگ اپنے زندگی کے مقصد اور گول کو واضح کرلیتے ہیں اور پھر اپنی تمام تر کوششیں اور قوت اس مقصد کے حصول کیلئے وقف کرلیتے ہیں۔ پھر راستے کی کوئی بھی رکاؤٹ ان کے پائے استقلال میں لرزش پیدا نہیں کرسکتی۔

باہمت لوگ اپنے مقصد خواہ دینی ہوں یا دنیاوی۔ ان کے پانے کے لیئے صرف آرزو نہیں رکھتے بلکہ اس کو اپنی زندگی کی ٹاپ Priority بنالیتے ہیں۔

باہمت لوگ مقصد کے حصول میں صرف interested نہیں ہوتے بلکہ  committed ہوتے ہیں۔ وہ اپنی منزل پانے کیلئے تھکتے نہیں، محنت سے جی نہیں چراتے، بہانے بازی سے گریز کرتے ہیں، گرتے ہیں تو پھر اُٹھ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ دوسروں کی تنقید پر دھیان نہیں دیتے اور اپنی تمام تر توجہ پوری یکسوئی کے ساتھ اپنے منزل پر مرکوز رکھتے ہیں اور بس مسلسل چلتے ہی رہتے ہیں اور پھر ایک دن اس جگہ موجود ہوتے ہیں جو اُن کی منزل اور مقصد ہوتی ہیں۔

ساتھیوں اور باہمت نوجوانوں! اللہ تعالیٰ نے ہم سب میں اعلیٰ صلاحیتیں اور کامیابی کے حصول کے لئے بے پناہ خوبیاں رکھی ہیں۔ اور پھر کامیابی کے حصول کیلئے قوت، جذبہ اور ہمت بھی عطاء کی ہے۔   کامیابی اور ترقی پر نہ تو کسی کی اجارہ داری ہے اور نہ ہی کسی پر کوئی پابندی عائد ہے۔ زندگی میں اللہ نے کامیابی کا میدان ہر آدمی کے لئے خالی چھوڑا ہوا ہے اور دروازے پر 'داخلہ ممنوع' کا بورڈ بھی نہیں لگا ہؤا ہے۔ اب ہر ایک کو اپنی جگہ خود ہی بنانی ہے اور اپنے حصے کی کمائی بھی خود ہی کرنی ہے۔

کامیابی کا یہ اصول ہے کہ یہ خود بخود جھولی میں آکر کبھی نہیں گرتی اور نہ ہی یہ کسی سے قرض لی جاتی ہے۔ بلکہ آپ نے خود اپنے ہمت و پامردی سے اسے تلاش کرنا ہوگا۔ اور جو باہمت نوجوان اس کی تلاش میں جہد مسلسل سے نکلتا ہے اور ڈھونڈتا ہے تو وہ اسے پالیتا ہے اور غلامی کے زنجیروں کو توڑتا ہوا بے خوف و خطر آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اور بے ہمت غلام ذہنیت اور مشکلات سے ڈرنے والے کمفرٹ زون میں رہنے والے صرف نام کے نوجوان وہی کے وہی رہ جاتے ہیں۔ 

اے نوجوانانِ ملت! اپنے کمفرٹ زون سے باہر آئیں،  آنکھیں کھولیں ڈپریشن اور خوف کو بھگائیں اور کامیابی کا دروازہ کھٹکٹھائیں کیونکہ کامیابی اور حریت کا دروازہ خود بخود نہیں کھلتا اس کو کھٹکھٹانا پڑتا ہے، اس کیلئے حرکت لازمی ہے تب جاکر کامیابی اور کامرانی کی دیدار ملے گی۔ 

یقین کیجیے کہ کامیابی خود ہماری تلاش میں ہے۔ کامرانی ہماری راہ تک رہی ہے، خواب ہمارے منتظر ہیں اور تعبیریں ہمارے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ بس ذرا ہمیں بیدار ہونے کی ضرورت ہیں۔ آج ہی بیدار ہو کر اپنے مقاصد اور خوابوں کی تعبیر کو حقیقت میں بدلنے کیلئے کل کا انتظار مت کریں۔

بشکریہ اردو کالمز