122

ادب، شاعر اور ادیب

 

ایسی خوبصورت تحریر جو متاثر کرے ، وہ ادبی تحریر کہلائے گی ، اس میں زبان کا خوبصورت استعمال جذبات و احساسات اور مشاہدات کو پیش کیا جائے، ادب کے آداب کی جو علامات ہوتی ہیں وہ معنوی تہہ داری رکھتی ہیں۔ ادبی تحریریں دیگر علوم سے مختلف ہوتی ہیں ، ادب کی زبان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ابہام ہوتا ہے۔

اس میں شستہ اصلاحات، استعارے علامات ہوتی ہیں۔ ادب میں گل کا لفظ آتا ہے ابہام اسی لیے کہا جاتا ہے کہ وہ کئی باتیں یعنی کئی معنی ہوتے ہیں۔ نزاکت ، خوشبو ، ملائمت میں ہے وہ گل کے نام سے ادا کی جاتی ہے۔ جس قدر اعلیٰ درجہ کا ادب ہوگا ، اس کی جب ترجمانی ہوگی ہر ایک اپنے طور پر معنی اخذ کرے گا ، اس قدر معنویت ہوکہ لا فانی سمجھا جائے۔

ایسی تحریر جو دل کو چھو لے وہ ادب ہے، ادب ہمارے احساسات جمال کی تشفی کرتا ہے ، ہر ایک کے دل میں خواہش ہوتی ہے کہ خوبصورت چیز دیکھے اس سے لطف حاصل کرے جو خوبصورتی ہوتی ہے وہ ادب کا بنیادی مقصد ہے کسی شے کو دیکھنے میں حسن کی تلاش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے پاس دو قلم ہوں جب کہ یہ ایک ہی کمپنی کے ہیں ایک قلم کا رنگ ہلکا پڑ گیا یا یہ سمجھیے وہ ہلکے رنگ کا ہے۔

دوسرا قلم جو کہ پہلے سے زیادہ خوبصورت رنگین ہے وہ دیدہ زیب ہے۔ حالانکہ جہاں تک افادیت کا تعلق ہے کہ دونوں قلم کی کارکردگی ایک جیسی ہے لکھنے میں دونوں ایک ہیں ذرا فرق نہیں۔ ظاہر ہے دیدہ زیب ہونے کی وجہ سے دوسرا قلم اہمیت کا حامل ہے اس کی پسندیدگی عام و خاص زیادہ ہے۔

ادب کو ان معنی میں لیتے ہیں جو لحاظ اور رکھ رکھاؤ کے بھی ہوتے ہیں اور جب اس کا جواب لکھتے ہیں تو عموماً ان آداب کو بیان کر دیتے ہیں یا اسلامیات ، معدنیات و معاشیات کے مضامین سے تعلق رکھتے ہیں اپنے طور پر بڑوں کے ادب و آداب چھوٹے بڑوں کا جس طرح سے ہوتا ہے اس پر بات کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اور اصل سمت سے دور ہٹ جاتے ہیں۔ کسی بھی زبان کا اپنا ادب ہوتا ہے وہ شاعری بھی ہو سکتی ہے ، نثر کے حوالے سے تمام نثر کی اصناف شامل ہوتی ہیں۔

مصنفین، محققین کے مطابق صدیاں بیت گئیں گزرے ادوار میں ادب کا چشمہ انسان کے ذہن و شعور، عقل و آگہی، احساسات و جذبات سے جو پھوٹا تھا وہ آج بھی رواں ہے۔ میرے خیال میں چشمہ سے تشبیہ دل ہے یعنی قلب ہے پانی کا منبہ۔ زمانہ گزر گیا اس کا سوتا انسان کا ذہن احساسات و جذبات ، جب سے انسان اس دہر فانی میں آیا تب سے ادب تخلیق ہونا شروع ہوا اور دنیا میں اٹھنے والا چشمہ حوادث بھی اس کو خشک نہ کرسکے۔ انسان جس طرح ترقی کرتا گیا اسی طرح ادب نے بھی ترقی کی۔ انقلاب ادب کو نہیں ختم کرسکے بلکہ اس کے اندر مزید اچھائیاں ، خوبیاں لاتے رہے۔ انسان نے نئی جہتوں کو نئے انداز کو اپنایا۔

انسان احساسات و جذبات رکھنے والی مخلوق ہے ، جس کے پاس نہ صرف ادراک کی قوت، سوچنے سمجھنے اور احساسات کی اصلاحات ہیں بلکہ اس کے اندر جذبات کا بھی منبع ہے۔ جذبات میں خوشی و غمی دونوں شامل ہیں۔ وہ اپنی خواہشات کا اظہار کرتا ہے۔ کبھی مغموم ہوتا ہے اس کے احساسات ، جذبات میں مایوسی ، ناکامی کا احساس چھپا ہوتا ہے کہیں وہ اچھے منظر کو دیکھتا ہے، اس کو دیکھ کر اس کو جس قدر احساس و جذبات رونما ہوتے ہیں وہ ان کو زبانی یا تحریر میں بیان کرتا ہے۔ انسان عقل خرد رکھتا ہے اس میں تمام احساسات و جذبات پائے جاتے ہیں۔

انسان خواہ کسی بھی خطے کا ہو وہ کوئی بھی زبان بولتا ہو ، اس کے احساسات و جذبات مشترکہ ہیں کچھ یا زیادہ۔ غم و نشاط ضرور ہوگا ، کسی بھی خوبصورت، دلکش شے دیکھ کر جس رنگ میں ہوتا ہے محسوس کرتا ہے۔ ادب کی تحریر جو دل کو چھو لے وہ ایک اچھا ادب ہے، ادیب کا افسانہ ہو یا کسی عنوان پر مضمون ، ناول ہو یا داستان ، شاعری غزل ہو یا نظم ، مرثیہ ہو یا قطع ، حمد و ثنا ہو یا نعت قاری کو اتنا گرویدہ و متاثر کردیتا ہے۔ نئی آگہی حاصل ہوتی ہے۔

رجب علی بیگ سرور کا فسانہ عجائب ہو یا عصمت بیگ چغتائی کے ناول ، ادب کے افسانے مضامین مقالے وغیرہ۔ اس ضمن میں چند شعرا اور ادبا کا اسم گرامی جاننا ضروری ہے۔

عبدالحلیم شرر، مرزا محمد ہادی رسوا، پنڈت رتن ناتھ سرشار، ملاوجہی، محمد حسین آزاد ، مولانا شبلی نعمانی، الطاف حسین حالی، علامہ محمد اقبال، مرزا اسد اللہ خان غالب، سرسید احمد خان، میر امن دہلوی، فردوس خاتون لکھنوی، راجندر ناتھ بیدی، جو ش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، حبیب جالب، امجد ظہیر، قرۃ العین حیدر، مہ کش، سجاد حیدر یلدرم، سید حیدر عباس رضوی، جاوید طوفان، منشی پریم چند، کنیا لعل وغیرہ۔

اچھا، کامیاب ادیب حقائق پرست بلکہ انسانی احساسات و جذبات کی خوبصورت ترجمانی کرتا ہے۔ اچھا ادیب اپنے کردار کے تخیل کو اصل حالت میں پیش کرتا ہے ، وہ ادیب میں ایسے تاثر پیش کرتا ہے کہ قاری اس کو اپنا محسوس کرے۔ قاری ایسا ہو جو ادیب کی تحریر کی گہرائی کو سمجھ سکے۔

ادیب برائے ادب اور ادب برائے زندگی ادیب کے لیے ضروری ہے وہ زندگی کو بہتر بنائے۔ ادیب کا یہ فن ہے کہ نثر نگاری کو اپنے قابو میں رکھے اسی طرح شعرا پر بھی یہ لازم ہے۔ اچھے اشعار ہوں کہا جاتا ہے شاعری حقیقت سے دور ہوتی ہے۔

ارسطو نے کہا ’’ عقل سے ہم سب کچھ سیکھتے ہیں۔‘‘ نقل بیک وقت دو کام دیتی ہے ایک ’’درس‘‘ دوسری ’’دیکھ کر محسوس کرنا اور اس سے اچھا کرنا۔‘‘ وہ ادب جس کو نثر سے نثر بنانے کی کوشش ہوتی ہے وہ ادب برائے زندگی ہے اور وہ ادب جس سے علم حاصل کرتا ہے وہ ادب جس سے زندگی بہتر بنانے کی کوشش ہوتی ہے وہ ادب برائے زندگی ہے اور وہ ادب جس سے علم حاصل کرنا ہو ، ادب برائے ادب والے کہتے ہیں۔ ادب کا کام سکھانا نہیں ہوتا وہ اچھی حسین خوبصورت تحریر ہے۔ بس اس کو دیکھنا چاہیے اس سے زیادہ مطالعہ، طلب نہیں کرنا چاہیے۔

کہا جاتا ہے اگر کسی کے تابع کردیتے ہیں تو اس کا جوہر انفرادیت جو آزادی ہے اس کو گویا چکرا لیتے ہیں، اس کی آزادی مجروح ہو جائے گی۔ ادب کو کسی کے تابع نہ کریں، ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی۔ ادیب یا فن کار سماج کا حصہ ہیں ان کی بھی اپنی سماجی زندگی ہے۔ کچھ معاشرتی تقاضے ہیں ان کی حیثیت فرد پورا کرتا ہے ، اگر وہ ادب کے ذریعے جہاں خوبصورت سے خوبصورت اشیا پیش کیں وہیں اگر اس میں ایسی خوبی ہو جس کی وجہ سے زندگی بہتر ہو سکے ، یہ بڑا کام ہوگا، گویا وہ ادب برائے ادب کے تقاضوں کو پورا کرے گا اور ادب برائے زندگی کے تقاضے بھی پورے کرے گا۔ ہمارے بے شمار شعرا و ادبا نے ادب پر بڑا کام کیا ہے ان کی خدمات تاریخ میں موجود ہیں۔

بشکریہ ایکسپرس