بارود اور بھوک

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کے مطابق اس دنیا میں روزانہ صرف بھوک سے ڈیڑھ لاکھ انسان لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ زندگی بچانے والی ادویات کی عدم موجودگی، مہلک بیماریوں کا علاج نہ کر پانے سے جو اموات ہوتی ہیں، آلودگی سے جو اموات ہو رہی ہیں، غذائی ملاوٹ سے جو جانیں جا رہی ہیں اور جنگوں میں جو مر رہے ہیں، یہ سب اس کے علاوہ ہیں۔

سوئیڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں قائم امن پر تحقیق کرنے والے بین الاقوامی ادارے سپری (SIPRI) کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ 2020 میں عالمی سطح پر دفاعی بجٹ اور ہتھیاروں پر کل 1981 بلین ڈالر خرچ کیے گئے۔

تقریباً دو کھرب امریکی ڈالر کی یہ رقوم 1.65 ٹریلین یوروکے برابر بنتی ہے۔ پاکستان میں صحت کا بجٹ صرف 400ارب روپے ہے۔ اگر موجودہ حکومت اصلاحات کا نفاذ چاہتی ہے تو اسے سب سے پہلے نجی اسپتالوں، ادویات ساز کمپنیوں اور لیبارٹریوں کو احتساب کے کٹہرے میں لانا ہوگا کیونکہ نجی اسپتالوں میں محض کمیشن کے لیے غیر ضروری ٹیسٹ تجویزکیے جاتے ہیں۔

اس وقت امریکا کے 68 اور چین کے 12جنگی بحری بیڑے آپریشنل حالت میں موجود ہیں۔  دنیا بھر میں اسلحے، سب میرین، جوہری ہتھیاروں کو چھوڑ دیں صرف ایک میزائل کے بنانے اور اس کے ٹیسٹ کرنے میں 6 ارب روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔ دنیا میں اسلحے، جنگی بحری بیڑوں کی روزانہ نقل و حمل میں اربوں ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ دنیا میں جتنی اسلحہ اور ہتھیاروں کی پیداوار ہوتی ہے، اس کا 10 فیصد کم کردیں تو غربت میں 50 فیصد کی کمی ہو جائے گی۔ بحری بیڑوں کی نقل و حمل روک دی جائے تو ناخواندگی میں 30 فیصد کی کمی ہو سکتی ہے۔

گزشتہ دو عالمی جنگوں میں جتنا اسلحہ استعمال ہوا اور انسانی جانیں گئیں اور سماج کی تباہی ہوئی، نئی نئی بیماریوں کی آمد ہوئی جو آیندہ 200 سال میں بھی پوری نہیں ہوسکتی۔ دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ اسلحے کی پیداوار امریکا کرتا ہے۔ اس کی صنعتی پیداوار کا 70 فیصد اسلحہ کی پیداوار ہوتی ہے۔ یقینا انھیں فروخت کرنا ہوتا ہے اور میدان جنگ کو تخلیق کرنا ہوتا ہے اور اسلحہ اٹھانے کے لیے ان ہاتھوں کو آمادہ کرنا ہوتا ہے جو جنگی میدان کے ایندھن بنیں۔ وسائل پر قبضہ اور لوٹ مار کے لیے اسلحے کی پیداوار کی جاتی ہے۔

اسلحہ فاتحین پیدا کرتے ہیں اور فاتحین قبضہ کرتے ہیں، ریپ کرتے ہیں اور لوٹ مار کرتے ہیں۔ 1498 میں اسپین اور پرتگال نے جنوبی امریکا میں ظلم کے پہاڑ ڈھائے۔ اس وقت دنیا میں اسلحہ کی پیداوار امریکا، چین، فرانس، جاپان، اسرائیل، برطانیہ، بھارت، پاکستان، آسٹریلیا اور بیشتر یورپی ممالک سب سے زیادہ کرتے ہیں۔ جب کہ خریداروں میں سب سے زیادہ اسرائیل، سعودی عرب، عرب امارات، قطر، بحرین، بھارت، پاکستان، کویت، مصر اور اردن وغیرہ ہیں۔ جب کہ اسی برصغیر میں دنیا کی 40فیصد غربت پلتی ہے۔ یہ جوہری اسلحہ رکھتے ہیں۔ ایشیا اور افریقہ کو مغربی ممالک اسلحہ بیچتے ہیں اور یہ ان  ہتھیاروں سے لڑ لڑ کر تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں۔

بھارت اور پاکستان کے پاس کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے بستر نہیں ہیں، آکسیجن نہیں ہے، ویکسین نہیں ہے اور ایمبولینسیں نہیں ہیں ، وجہ یہ ہے کہ صحت کے شعبے پر خرچ نہیں کیا جاتا۔ ہمارے بجٹ میں صحت کے لیے صرف 400 ارب روپے رکھے گئے ، وہ بھی عوام تک پہنچتے پہنچتے مشکل سے 10 فیصد ہی رہ جاتا ہوگا۔ دنیا بھرمیں سب سے زیادہ اموات آلودگی سے ہو رہی ہیں۔ بھارت میں صرف دمے کے امراض سے روزانہ 10ہزار مریض جان سے ہاتھ دھوتے ہیں۔ پاکستان میں ہر سال 40 ہزار خواتین چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہو کر جاں بحق ہوجاتی ہیں۔ 2020 میں صرف ٹریفک حادثات میں دنیا بھر میں 11 لاکھ انسان جان سے جاتے رہے۔

چند برس قبل نیشنل جیوگرافک نے اپنی ایک تحقیق میں جنگل میں رہنے والے ایک سو ننگ دھڑنگ رہنے والے لوگوں کا خون ٹیسٹ کیا اور ان کے خون میں (کسی کے بھی قسم کے کولیسٹرول ، ہیپاٹائٹس ، ڈائی بٹیز ، کینسر ، ایڈز یا کوئی اور مہلک بیماریوں کے ثبوت نہیں ملے۔

ادھر فائر فائٹرز ، فائر مافیا کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔ ایمازون اور ایرازونا کے جنگلات اور آسٹریلیا کے جنگلات میں آئے روز فائر مافیا آگ لگا کرمالز، شاپس اور زرعی زمین حاصل کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اس طرح سے صحت کی تباہی میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

اس کے بعد صنعتی آلودگی، پلاسٹک کی آلودگی ، پانی کی آلودگی اور درختوں کی کمی کی آلودگی انسانی صحت کو تباہ کرنے میں مسلسل کام آ رہی ہیں۔ آخری سوال انسان کے جینے کا ہے، پھر علاج معالجے کا ہے، پھر رہائش اور تعلیم کا ہے۔ اگر دنیا کے تمام ممالک خصوصاً طاقتور ممالک اسلحے کی پیداوار کو روک دیں اور موجود ہتھیاروں کو دفن کردیں تو دنیا میں بھوک ، بے روزگاری ، بے گھری اور بیماری بھی دفن ہو جائے گی۔

بشکریہ روزنامہ آج