194

  قوم کی صحت کے لئے سخت فیصلے ضروری ہیں۔

                                          

    بنی نوع انسان کو جب اللہ رب العزت نے زمین پر آباد کیاہے، تب سے مختلف قسم کے حالات کا مقابلہ کررہا ہے  اور تا قیامت کرتا رہا ہوگا۔ کبھی ہار اور کبھی جیت کایہ کھیل جاری ہے اور جاری رہے گا۔کبھی بھوک اور قحط کا سامنا، تو کبھی سیلاب کی تباہ کاریاں ، کبھی آگ نے نقصان پہنچایا، تو کبھی سیلاب اور طوفان نے حضرت انسان کو برباد کیا۔ بس یہ حالات ازل سے جاری ہیں اور تا ابد جاری رہیں گے۔
2020 کے آغاز میں چین کے شہراوہان سے کورونا نامی ایک نئی وباء شروع ہوئی، اور دیکھتے ہی دیکھتے بہت سے انسانوں کو نگل لیا ۔ پھر اِس ظالم وائرس کی دوسری لہر نے تمام دنیا کے اِنسانوں پر ایک اور قیامت ڈھادی۔یہ مصیبت ابھی پوری طرح ٹلی نہیں تھی کہ اِس قاتل وائرس نے بھر پور طاقت کے ساتھ پھر حملہ کیا اور تا حال یہ تیسری لہر جاری ہے اوراسکی شدت روبروزبڑھتی جارہی ہے۔پہلی لہر سے لیکر اِس وقت تک دنیا کے تمام سائنسدان، ماہرین طب، فلسفی، دانشور اور علمائے کرام اِس بات پر متفق ہیں کہ اَگرپوری دنیا کے لوگ حفاظتی تدابیر پر عمل کریں، تو  اِس مہلک وباء سے بچاجاسکتاہے، مگر اِس وباء کے شروع دن سے تا حال بعض لوگ (SOPs) یعنی
s Standard Operating Procedure پر مکمل طور پر عمل درآمدنہیں کرتے۔  ایس او پیز ایک طویل غور و فکر کے بعد قاتل وباء کے خلاف مرتب کئے گئے ہیں ،  تاکہ انسانیت اِس مہلک وباء کی تباہی سے بچ جائے۔ مگر نہایت آفسوس سے کہتا ہوں کہ ایس او پیز پرعمل ہر بندہ نہیں کرتا، جوکہ بنی نوع انسان کی تباہی و بربادی کا باعث بنتا جارہا ہے۔
    ایس او پیز  پر عمل نہ کرنے والے لوگ اِس بیماری کے وجود سے اِنکاری ہیں یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ کرونا نامی وائرس سرے سے موجود ہی نہیں ہے، اِس وجہ سے بعض لوگ ا یس او پیز پر عمل نہیں کرتے۔ اِس بیماری کے وجود سے اِنکار احمقوں کی جنت میں رہنے کی مترادف ہے، کیونکہ پوری دنیا میں قاتل وباء کی موجودگی موت اور بیماریوں کی شکل میں نظر آرہی ہے۔اگر یہ وباء نہ ہوتی ، تو زندگی اور موت کایہ کھیل اِس طرح ہولناک نہ ہوتا۔ہر سو اِ س مہلک وائرس سے متاثرہ لوگوں کو ہم دیکھتے ہیں، جس نے پوری دنیا کو  لپیٹ میں لیاہواہے۔ یہی و جہ ہے کہ پوری دنیا کے حکمران، سائنسدان اورڈاکٹرز وغیرہ ایس او پیز پر عمل کرنے اور کروانے کی سختی سے  ہدایت کرتے ہیںتاکہ پوری دنیا میں انسانی زندگی اس سے وباسے محفوظ ہوجائے۔مگر نہایت ہی افسوس اُن لوگوں پرہے جو ایس او پیز پر عمل نہیں کرتے، یہی وجہ ہے کہ ارباب اختیار موجودہ وقت میں سخت فیصلے کرنے پر مجبورہوجاتے ہیں، حالانکہ سخت فیصلے کرتے وقت وہ سمجھتے ہیں کہ نتیجہ کیا ہو گا، اُن کے عوام کون کونسے مسائل سے دوچار ہونگے، مگر وہ اِنسانوں کی بقائ، آرام اور سکون کی خاطر سخت فیصلے کرتے ہیں، کیونکہ عوام ایس او پیز  پر عمل جو نہیں کرتے، اگروہ ا یس او پیز پر عمل کرتے ، تو پوری دنیا کے ارباب اختیار عوام پر اپنے سخت فیصلے مسلط نہ کرتے۔
    جب بچہ بیمار ہوجاتاہے، تو والدین اُس کو علاج معالجہ کی غرض سے ڈاکٹر کے پاس لے جاتے ہیں، ڈاکٹر معائنے کے بعد بعض اوقات اپریشن تجویزکرلیتے ہیں،جوکہ بظاہر مشکل کام ہے مگروالدین اپنے وسائل خرچ کرکے اپنے بچے کی زندگی کے لئے ہرقسم قربانی کے لئے تیارہوجاتے ہیں۔ اگر بیمار بچے کے والدین ڈاکٹر کی ہدایت پر عمل نہ کریں ، تو یقینانقصان انکے بچے کاہوگا۔اِسی طرح دور حاضر میں اگر ہم اپنے بڑوں کے احکامات کو نظر انداز کریں، تو بلاِشبہ نقصان ہمارا ہی ہوگا، مالی اور جسمانی نقصانات کا سامنا ہم ہی کریں گے، ہماری بے احتیاتی کی وجہ سے ہمارے ماہرین طب سخت فیصلے کرنے پر مجبو ر ہوگئے ہیں۔
    دوسری طرف ہماری بے احتیاطی کہ وجہ سے یہ کورونا وائرس روزبروز طاقتور ہوتاجارہا ہے۔ ماہرین طب کے مطابق کوروناکی یہ تیسری لہر ، پہلی اور دوسری لہر سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ آئے دن اموات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔اِ س موذی مرض کی وجہ سے ہم مختلف قسم کے مسائل سے دوچار ہورہے ہیں، ہمارے تعلیم ادارے بار بار بند ہوتے جارہے ہیںجس کی وجہ سے تعلیمی میدان میں ہمیں ناقابل تلافی نقصان ہورہاہے، ذریعہ معاش متاثر ہورہاہے، اگر عوام الناس ایس او پیز پر ماہرین صحت کے اُصولوں کے مطابق سختی سے عمل پیرا ہوجائے، تو بلاِ شبہ یہ بیماری ختم ہوجائے گی۔ اور ہم مزید نقصانات، پریشانیوں اور ارباب اختیار کے سخت فیصلوں سے بچ جائیں گے۔

    
                            

بشکریہ اردو کالمز