261

خواتین پر کوویڈ ۔ ۱۹ کا بالواسطہ اثرکیا ہے؟

کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لئے پاکستان  اور بیشتر ممالک میں لاک ڈاؤن کے باعث لوگ گھروں میں رہ رہے ہیں جس کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں، لیکن پہلے سے موجود زہریلے معاشرتی اصولوں اور صنفی عدم مساوات ، وبائی امراض کی وجہ سے معاشی اور معاشرتی دباؤ ،محدود نقل و حرکت اور معاشرتی تنہائی کے اقدامات کے ساتھ ، خواتین پہ تشدد  کے معاملات میں غیر معمولی  طور پر اضافہ ہوا ہے۔ اس وبائی مرض نے تشدد اور زیادتی کرنے والوں کے لئے آسانی پیدا کر دی ہے۔ بہت سی خواتین معاونت خدمات سے منقطع ہونے کے دوران گھر میں اپنے ساتھ ہونے والی بدسلوکیوں کے ساتھ’لاک ڈاؤن‘میں ہیں۔

عالمی سطح پر بھی لاک ڈاؤن لازمی اقدامات کے دوران گھریلو تشدد میں ہونے والے اضافےنےنا صرف ڈبلیو ایچ او کو اس کا اعتراف کرنے پر مجبور کیا ہےبلکہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے اس وبائی مرض کے دوران’’حکومتوں کو خواتین کی حفاظت کوبھی اولین ترجیح دینے‘‘ پر زور دیا۔

پاکستان میں ، اگرچہ باضابطہ طور پر توکچھ ریکارڈ نہیں کیا گیا ہے ،لیکن پی ڈی ایچ ایس کے مطابق سرکاری ریکارڈ ، پری کورونا وائرس سے پتہ چلتا ہے کہ ۱۵سے۴۹ سال کی عمر کی ۲۸ فیصد خواتین / لڑکیوں کو جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ۳ فیصدنے تشدد کی وجہ سے اسقاط حمل ، اسقاط حمل یا دیگر صحت سے متعلق دشواریوں کا سامنا کیا ہے۔ عام قسم کی چوٹوں، کٹوتی ، چوٹ کا درد۲۲ فیصداور آنکھوں کی چوٹیں ، موچ ، سندچیوتی یا جلنےکے ۱۲فیصدکیسزسامنے آئے ہیں۔ گہرے زخموں ، ٹوٹی ہڈیوں اور ٹوٹے ہوئے دانتوں کو شامل کرنے کے لئے سنگین چوٹوں کی اطلاع ۶ فیصدبتائی گئی ہے۔

عام حالات میں سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعے گھریلو تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین کو مدد فراہم کی جاتی ہے۔ لیکن لاک ڈاؤن کے باعث متاثرہونے والی خواتین تک رسائی خاصی مشکل ہے۔ جسمانی زیادتی کے لئے طبی امداد کی ضرورت پڑنے پر ہسپتال جانے سے گریز کئے جانے کے امکانات زیادہ ہیں اور گھر میں رہنے کے علاوہ دوسری راہ نہیں ہے۔ گھریلو زیادتیوں کو آج بھی ایک ذاتی مسئلہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس کی وجہ ہمارا معاشرتی نظام ہے جہاں گھریلو زیادتیوں پر آواز اٹھانے اوراس کیلئے کسی قسم کے قانونی اقدام کو نامناسب سمجھا جاتا ہے۔ اور لاک ڈاؤن کے باعث ویسے بھی تھانوں اورعدالتوں تک رسائی مشکل ہے۔

 اس خط کے تصوف سے میری حکومت سے گزارش ہےکہ حکومت کو بڑھتی غربت وبےروزگاری، گرتی معیشت جیسے دیگر معاملات کہ ساتھ ساتھاس معاملے کو بھی زیرغور لانا چاہئے ۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ پاکستان کی ۴۹فیصد آبادی خواتین پر مشتمل ہےاور ان کے حقوق کی عدپ فراہمی  اور جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائے بغیر پاکستان کبھی بھی حقیقی معنوں میں ایک فلاحی ریاست کی شکل اختیار نہیں کر سکتا۔

بشکریہ اردو کالمز