238

پارہ نمبر چار کا مختصر تفسیری خلاصہ۔۔۔ 

چوتھے پارے کے آغاز میں یہ بات واضح کی کہ تم ہرگز نیکی کو اس وقت تک نہیں پہنچ سکتے جبتکہ تم اپنی پسندیدہ چیز اللہ کی راہ میں خرچ نہ کر دو
یعنی انفاق فی سبیل اللہ اس وقت کمال درجے کو پہنچ جاتا ہے کہ جب انسان اسکی راہ میں وہ چیز دے کہ جسے وہ بہت پسند کرتا ہو
 اسی مفہوم کی نبی علیہ السلام کی ایک حدیث بھی ہے فرمایا کہ تم اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے(  کامل مومن) کہ جب تک تم اپنے بھائ کے لیے وہی چیز پسند نہ کرو کہ جو تم اپنے لیے پسند کرتے ہو
آیت نمبر 103 میں ارشاد فرمایا کہ اللہ کی رسی کو مظبوطی سے پکڑ لو اور فرقوں میں مت بٹو
مفسرین کرام کے نزدیک اللہ کی رسی سے مراد قرآن کریم ہے جسمیں رب تعالی کے احکام ہیں ان پہ عمل کرنے کو کہا گیا ہے 
آیت نمبر 110  میں ارشاد فرمایا کہ جتنی امتیں اس سے قبل گز چکیں ہیں تم ان سب میں سے بہترین امت ہو تمہاری دیگر امتوں سے افضلیت کی وجہ یہ ہیکہ تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پہ ایمان رکھتے ہو
آیت نمبر 133 میں فرمایا کہ  اپنے رب کی بخشش اور اسکی جنت کی طرف جلدی کرو وہ جنت کہ جسکا عرض تمام آسمان اور زمینیں ہیں اور یہ متقین کے واسطے تیار کی گئی ہے متقین کون ہیں؟
 اگلی آیت میں انکی نشانیاں بیان کیں کہ جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں چاۓ وہ خوشحال ہوں یا تنگ دستی کی حالت میں ہوں  ، غصہ پینے والے اور لوگوں کی خطاؤں کو معاف کرنے والے فرمایا یہی تو وہ لوگ ہیں کہ جن سے اللہ محبت فرماتا ہے
آیت نمبر 164 میں نبی علیہ السلام کی بعثت کو اللہ کریم نے بطور احسان ذکر کیا 
فرمایا کہ بے شک اللہ نے مومنوں پہ احسان فرمایا کہ جب ان میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا اور فرمایا آپ کی بعثت مبارکہ سے قبل لوگ کھلی گمراہی میں تھے
آیت نمبر 179 میں علم غیب کا ذکر ہے فرما اللہ کی یہ شان نہیں کہ تم عام  لوگوں کو غیب پر مطلع کرے لیکن اللہ تعالی غیب پہ مطلع فرمانے کے لیے اپنے رسولوں کو چن لیتا ہے
تاہم یہ بات واضح رہے کہ اللہ تعالی اپنے نبیوں کو جو غیب کا علم عطا فرماتا ہے وہ علم عطائی  ہے ذاتی نہیں 

قرآن کریم کی  متعدد آیات میں انبیاء علیھم السلام کو غیب کی خبروں پہ مطلع کیے جانے کا ذکر موجود ہے لیکن یہ علم اللہ کی عطا سے ہے لہذا یہ ذاتی علم نہیں اور نہ ہی انبیاء علیھم السلام کے علم کو اللہ تبارک تعالی کے علم کے ساتھ کوئی نسبت ہے چونکہ اللہ تعالی کا علم ذاتی ہے جبکہ انبیاء کا علم اسکی عطا سے ہے
امام احمد رضا قادری رحمہ اللہ نے لکھا ہیکہ نبیوں اور رسولوں کے علم کو اللہ تعالی کے علم کے ساتھ اتنی نسبت بھی نہیں ہیکہ جتنی ایک قطرے کو سمندر سے ہوتی ہے
ہمارا یہ ایمان ہے کہ اللہ کے رسولﷺ کو غیب کا علم عطا کیا گیا ہے وحی کے ذریعے اس پہ قرآن کریم کی متعدد آیات اور کئ احادیث شاید ہیں
بخاری شریف میں جلد 1 صفحہ 435 پہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اس بارے  حدیث مروی ہے فرماتے ہیں کہ ایک مجلس میں نبی علیہ السلام ہمارے درمیان کھڑے ہوۓ  پھر آپﷺ نے ابتداء خلق سے خبریں بیان کرنا شروع کیں  حتی کے جنتیوں کے اپنے ٹھکانوں تک جانے اور اسی طرح جہنمیوں کے اپنے ٹھکانوں تک جانے کی خبریں بیان کیں سو جس شخص  نے ان کو یاد رکھا اس نے یاد رکھا اور جس نے ان کو بھلا دیا اس  نے ان کو بھلا دیا۔

بشکریہ اردو کالمز