37

بدلے کے بغیر بدلنا ہوگا ریاست کو!

ہمارے اک دوست شانتی دیوی جو آجکل ساؤتھ افریقہ میں رہتی ہے۔ اس نے چند دن پہلے برطانیہ کے اہم فوجی عہدہ دار کی تصویر مجھے انٹرنیٹ پر میل کی وہ تصویر ایک قبول صورت ناری کی ہے۔ اس نے برطانیہ کی فوج کے اعلیٰ عہدہ دار کے رینک لگائے ہوئے ہیں۔ اس عسکری خاتون کا نام لیفٹیننٹ جنرل شاہ رون نشیتLT GEN SHARON NISHITH برطانیہ کی آئندہ اعلیٰ آرمی چیف ہوں گی اور پہلی خاتون جو اس عہدہ پر لگائی گئی ہے۔

 

میں حیران تھا۔ میں نے شانتی سے ہی پوچھ لیا کہ اس ناری کا انتخاب کس نے کیا۔ شانتی کا جواب تھا۔ بڑے شرارتی ہو۔ تم کو نہیں معلوم۔ میرے اچھے دوست۔ اس کا انتخاب ملک کے بادشاہ سلامت نے کیا ہے۔ برطانیہ کے عمر رسید۔ بادشاہ سلامت خواتین کے حوالے سے بڑا اچھا ماضی رکھتے ہیں۔ دنیا بھر میں افواج کا کردار بدل گیا ہے۔
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

برطانیہ ایک عرصہ تک مشرق کے کئی ملکوں پر قابض رہا اور اس نے وہاں کا انتظام افواج کے ذریعے ہی چلایا۔

اب افواج کا چلن بدل گیا ہے۔ جنگ کے لیے دوسرے ملکوں کی افواج کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے کے افغانستان میں یورپی ممالک کی افواج کا استعمال کیا گیا۔ آج کی افواج اصل میں ملکوں کے معاشی معاملات کا تحفظ کرتی ہیں۔ اس میں امریکی فوج کا کردار بہت ہی نمایاں ہے۔ امریکی افواج کو سابق امریکی صد ٹرمپ کا روپ پسند نہ تھا۔ مگر اب دوبارہ ٹرمپ ان کو قابو کرنے کے لیے آئندہ کا کامیاب امیدوار ہے۔

 

اب آپ ہمارے ہاں کے معاملات کو دیکھ لیں سابق سپاہ سالار فارغ جنرل باجوہ نے کتنے بیرونی ملک کے دورے اس معاشی ترقی کے تناظر میں کیے۔ پاکستان جو ایک عرصہ مالی اور معاشی بدحالی سے نبرد آزما ہے۔ عوام میں غربت کا تناظر بہت ہی زیادہ ہو رہا ہے۔ اور مہنگائی نے ملکی ترقی کو روک رکھا ہے۔ اس پر مقروض پاکستان کو خطرہ لگا رہتا ہے۔کہ وہ ایک دیوالیہ ملک نہ بن جائے۔

 

قرضوں کے بوجھ نے ملک کی آزادی کو داو ¿پر لگا رکھا ہے اور ایک عرصہ سے ہم اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں کی امداد سے ملک کو چلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ملک میں جمہوری حکمرانوں نے جو لوٹ مار مچائی اس کا مقابلہ ہم فوج کے سابق حکمرانوں سے بھی نہیں کر سکتے۔ اس مالی اور معاشی کمزوری نے پاکستان کے تمام اداروں کو بھی بہت بس اور لاچار کر دیا۔ آئی ایم ایف ایک عرصہ سے پاکستان کے لیے امداد یا قرض فراہم کر رہا ہے۔

 

مگر اس کی اپنی شرائط ایسی ہیں جس سے پاکستان مزید کمزور ہوتا نظر آ رہا ہے۔ وہ پاکستان میں کچھ اچھا بھی کروانے کا سوچتے رہتے ہیں۔ مگر ہمارے طاقت ور حلقے ان کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ آئی ایم ایف کی بڑی خواہش ہے۔ پاکستان اپنے خطہ میں ایک پر امن ملک کی حیثیت سے اپنی شناخت منوائے۔ مگر کرپشن کا جن اتنا مضبوط ہے کہ اس نے جمہوریت کے اندر بھی اپنی جگہ بنا لی ہے ہمارے اہم ادارے جن میں قانون اور انصاف کا نظام بھی مفلوج اور ناکارہ بن سا گیا ہے۔

 

حقیقت حال یہ ہے کہ ہم ابھی بھی آئی ایم ایف کی مدد کے بغیر ملک کی سمت درست کر سکتے ہیں۔ مگر مجبوری یہ ہے کہ جمہوریت کو نظر انداز کرنا ہوگا۔ چین کی ترقی میں چین کی افواج کا بڑا ہاتھ ہے۔ 1950ءکے بعد ماؤرے تنگ نے جو پالیسی بنائی تھی۔ اس کی بنیاد دو اہم باتوں پر تھی۔ چینی افواج کے ذمہ دو کام لگائے گئے تھے۔ ایک یہ ملک بھر کے بچوں کو تعلیم کے لیے فوج کو خصوصی تربیت دی گئی اور ملک بھر کے کسانوں کے ساتھ چینی فوج نے ذمہ داری کی بنیاد پر مدد شروع کی اور چند ہی سال میں زراعت کے حوالہ سے خود کفالت کی منزل کو آسان کر لیا۔

 

چین ایشیاءمیں کاروبار کے حوالہ سے اپنی حیثیت منوا رہا ہے اور تو اور بھارت بھی چین کی ترقی سے پریشان ہے۔ بھارت میں وزیر اعظم مودی کی امریکہ دوستی آنے والے انتخابات میں مودی کو بڑے نقصان کی طرف لے کر جا رہی ہے۔ مودی کو اندازہ ہے۔ پھر پاکستان کی عسکری حلقوں کے پاس یہ موقعہ آیا ہے۔ وہ مالی  اور معاشی بے اعتمادی کو اپنے عمل کے ذریعہ بدلنے کی منصوبہ بندی کریں۔

 

نوکر شاہی پر اعتبار کرنا ان کی ہدف کو متاثر کر سکتا ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کا کردار فوجی حلقوں میں ایک سوالیہ نشان ہےان میں دو خوبیاں ضرور ہیں ایک تو امریکہ کے تربیت دار ہیں اور سابق صدر پاکستان کے بالکے ہیں ان کو سپاہ سالار جہموریہ پاکستان حافظ صاحب کی مکمل اشرآباد حاصل رہی ہے اسی کارن وہ صوبہ پنجاب موکھ بننے کے حق دار ٹھہرے۔ ان کی ضمانت میڈیا کے نمبر داروں نے بھی دی۔ مگر ان کےسیاست کے داؤ پیچ عوام کے لیے بہت ہی مشکل پیدا کر رہے ہیں۔

بشکریہ اردو کالمز