دنیا میں شائد ہی کہیں بارڈر کے آر پار جذبات، احساسات، زبان اور ثقافت کا اس قدر اشتراک ہو جتنا پاکستانی اور بھارتی پنجاب کے درمیان ہے۔دونوں پنجابوں کے تقریبا ہر باسی کے پاس اپنے ماضی سے جڑی ایک کہانی ہے جو دونوں پنجابوں کے درمیان ایک سانجھ پیدا کرتی ہے۔ ایسے کئی مناظر ہم نے لاہور میں منعقد ہونے والی دوسری انٹرنیشنل پنجابی کانفرنس کے دوران دیکھے جس میں بھارتی پنجاب سمیت دنیا بھر سے پنجابی زبان اور ثقافت سے جڑت رکھنے والے ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔یہ تین روزہ کانفرنس تھی جس میں پیش کیے گئے پروگرام اپنی نوعیت کے اعتبار سے دوسری کانفرنسوں سے مختلف رہے۔ عام طور پہ اس طرح کے اکٹھ میں پنجابی ثقافت کے اظہار کے لیے ڈھول،لوک موسیقی اور بھنگڑے تک ہی محدود رہا جاتا ہے۔مگر اس کانفرنس میں پنجابی،پنجابیت اور پنجاب کو درپیش مختلف مسائل پہ پرمغز مذاکرے بھی کروائے گئے۔جس میں دنیا بھر سے آئے پنجابی دانشوروں، استادوں،صحافیوں،سکالرز، فنکاروں اور سیاستدانوں نے شرکت کی۔ پہلے دن یعنی 18 نومبر کو " پنجابیوں کے قومی اور سیاسی شعور " کے عنوان سے مذاکرہ ہوا۔معروف صحافی سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ پنجابی اپنے سیاسی شعور کے حوالے سے ہمیشہ غیر متعصب رہے ہیں۔انہوں نے کبھی بھی مذہب یا زبان کے نام پہ قتل و غارت نہیں کی۔فرخ سہیل گوئندی نے پنجابیوں کی سیاسی بغاوت پہ سیر حاصل گفتگو کی۔بھگت سنگھ،دلا بھٹی اور رائے احمد خان کھرل کی خدمات کو سراہا۔ نین سکھ اور امریکا سے تشریف لائے پنجابی دانشور اشوک بھورا نے بھی غیر ملکی حملہ آوروں کے خلاف پنجاب کی مزاحمت پہ گفتگو کی۔ جدید ٹیکنالوجی کی اہمیت اور ضرورت سے انکار ممکن نہیں۔ ٹیکنالوجی کے ساتھ مادری زبانوں کا امتزاج اسے آسان بنا دیتا ہے۔نوبل انعام کے لیے نامزد کئے جانے والے ڈاکٹر منور احمد انیس نے اس موضوع پہ شاندار گفتگو کی اور حاضرین کی معلومات میں اضافہ کیا۔ اس کے علاوہ " مادری زبان کے ذریعے تعلیم " " پنجابی عورت اور بغاوت کی روایت " اور " پنجابی ادب اور سماج کے تعلق " کے موضوعات پہ مذاکرے ہوئے۔ شرکاء نے تعمیری اور تنقیدی زاویوں سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ مشہور لوک گائیک سائیں ظہور نے بابا بلھے شاہ کا کلام گا کر حاضرین سے خوب داد سمیٹی۔ سائیں ظہور پنجاب کے ایسے فنکار ہیں جنہوں نے پنجابی ادب سے کافی اور دوہڑا گانے کی روایت کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ کانفرنس کے دوسرے دن کا آغاز برصغیر کی تاریخ کے مستند تاریخ دان اور دانشور ڈاکٹر اشتیاق احمد کی گفتگو سے ہوا۔انہوں نے پنجاب کی تقسیم کے سیاسی اور سماجی محرکات پہ روشنی ڈالی۔ پنجابی زبان و ادب کی کانفرنس ہو تو یہ کیسے ممکن ہے کہ بابافرید ، بلھے شاہ اور گرو نانک کا تذکرہ نہ ہو۔ " فرید، نانک ، بلھا اورموجودہ سماج " کے موضوع پہ علمی مذاکرہ ہوا۔ جس میں خالد مسعود،صغرا صدف،چودھری منظور حسین اور پروفیسر کلیان سنگھ جیسی نامور اور معتبر شخصیات نے گفتگو کی۔اسی طرح سیاسی حوالوں سے پنجاب اور پنجابیوں کی جدوجہد پہ تجزیہ کے لیے سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان،چودھری اعتزاز احسن اور چودھری محمد سرور کو مدعو کیا گیا تھا۔تینوں سیاستدانوں نے پنجابی زبان کو دفتراور سلیبس کی زبان بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔ملک محمد احمد خان نے بتایا کہ انہوں نے پنجاب اسمبلی میں ممبران کو مادری زبان میں گفتگو کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر رکھا ہے۔یہ روایت یا اجازت اس سے پہلے موجود نہیں تھی۔ پنجابی سینما کے موضوع پہ ہونے والے مذاکرے میں انڈین پنجابی فلموں میں ماں کے کردار سے مشہور ہونے والی اداکارہ گرپریت کور بھنگو،اداکار ملکیت رونی اور پروفیسر طارق جٹالہ نے گفتگو کی اور دونوں اطراف کے سینما کا تقابلی جائزہ پیش کیا۔ اسی طرح گفتگو کا ایک سیشن پنجاب کے ہیروز رائے احمد خان کھرل،سر گنگا رام اور سردار دیال سنگھ مجیٹھیا کے نام رہاجس میں ان شخصیات کی خدمات اور کارناموں کو سراہا گیا۔ سردار دیال سنگھ کے قائم کردہ دیال سنگھ کالج کے طلباو طالبات نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے سٹوڈنٹس کے ساتھ مل کر اس کانفرنس کاتین دن تک مکمل انتظام سنبھالے رکھا۔ جس سے انہوں نے نہ صرف علمی و ادبی روشنائی حاصل کی بلکہ انتظامی امور کی ٹریننگ بھی حاصل کی۔ کانفرنس کے تیسرے دن کا آغاز ہی خاکسار کے سیشن سے ہوا۔ جس کا عنوان تھا " پنجابی صحافت ،ماضی ،حال اور مستقبل " رہا۔ بھارتی پنجاب سے تشریف لائی مشہور صحافتی جوڑی سورن سنگھ ٹہنا اور ہرمن تھند کے علاوہ امریکا میں پنجابی اخبار اور چینل کے مالک ڈاکٹر سرندر سنگھ اور سکریت آنند جی نے اس سیشن میں گفتگو کی۔صحافت بلخصوص رپورٹنگ کی مادری زبان میں اہمیت پہ روشنی ڈالی گئی۔یہ سیشن صحافت کے طالب علموں اور عامل صحافیوں کے لیے بہت مفید رہا۔تیسرے دن کے اختتام پہ گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر نے بھی شرکاء سے خطاب کیا۔ کانفرنس میں بھارتی پنجاب سے فلم سٹارز کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی جن میں کرم جیت انمول،گرپریت بھنگو،ملکیت رونی اور مشہور گلوکار بیرسنگھ نمایاں رہے۔پاکستان سے سہیل احمد،سخاوت ناز، عارف لوہار،سلیم البیلا، گوگا پسروری، فلک ناز، نے شرکت کی۔ یہ کانفرنس ہر پہلو سے علم،ادب،پنجابی آرٹ اور ثقافت کی نمائندہ تھی ۔ایسی کانفرنسز کا منعقد ہونا اور ان میں نوجوان نسل کا شرکت کرنا یقینا ایک اچھا شگون ہے۔پاکستان میں سیاسی منافرت کے خاتمے کے لیے ایسی کاوشوں کو سراہا جانا چاہیے۔
28