ٍ پہلے تین نظمیں ملاحظہ فرمائیں:نظم''ایک خواب کے تعاقب میں'':رات آندھی چلیرات بلیوں کے رونے کی آوازیں آتی رہیںرات ایک شخص مر گیاصبح اس کی لاششہر کے مصروف چوک میںدیر تکگرین بیلٹ پر پڑی رہیلوگوں کو اس وقت پتا چلاجب لاش پر چیلیں ماتم کرنے آئیںیہ شخص پیدائشی طور پر دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے محروم تھا(اس کی شناخت نہیں ہو سکی)پولیس کو جائے وقوعہ سے زمین کا ایک ٹکڑا ملا ہےاس کی پیمائش ممکن نہیںاس کی جیب سے ایک خواب ملا ہےیہ خواب جس زبان میں دیکھا گیااس کو پڑھنے والا آخری آدمیکل رات مر گیا ہےقتل کی ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی۔دوسری نظم پڑھیے''خدا نارض ہوا'':ہجرت یہ بھی خوش نہیں آئے گیجو لکھا گیاوہ ہماری تقدیر نہیں تھیجو کہا گیاوہ ہمارا جرم نہیں تھاخدا ناراض ہوا توآسمانوں سے اتری کالی بارشیںاور اپنے خدوخال گنوا دیے سب نےان آنکھوں نے گھوم گھوم کر دیکھاکوئی نہیں تھا بستی میںخدا کا دوستسب نے اپنے قہقہے منڈیر پر رکھےاور پہاڑوں میں جذب ہو گئےصدائے کن کے منتظرچار ہزار برس بھی بیت جائیں گےمگر زمین پر کوئی نبی نہیں آنے والا۔اور اب ایک تیسری نظم ''جب تمہارے بارے میں سوچا جاتا ہے'':۔ لفظوں کو پر لگ جاتے ہیںاور وہ تتلیوں کے ساتھریگستانی کھیتوں تک سفر کرتے ہیںجہاں تارا میرا پھولوں کی زردیکسی دہقانی دوشیزہ کی بے ترتیب دھڑکنوںمدور اٹھانوں سے پھوٹتی روشنیاور ہتھیلی سے اٹھتی حنائی خوشبوکے ساتھ آمیز ہوتی ہےلفظوں کو پر لگ جاتے ہیں اورسفید پروں والے مہاجر پرندوں کے ساتھ سبز پانیوںاور نیلی جھیلوں کے اوپر سے گزرتے ہیںجب تمہارے بارے میں سوچاجاتا ہےدنیا کی تمام زبانوں کے لفظوں کو پر لگ جاتے ہیںاور وہ نظمیں بن جاتی ہیں۔ یہ نظمیں حال ہی میں شائع ہونے والی نثری نظموں کی ایک اہم کتاب''جنگ اور اداسی کی نظمیں''سے لی گئی ہیں،ان نظموں کی قرات مجھے روس کے مزاحمتی ادیب رسول حمزہ توف کا ایک جملہ بار بار یاد آتا رہا،''ادیب اور شاعر،اندر کی آتش کے محافظ ہوتے ہیں یعنی انسان کی اندر کی آگ کے نگہبان ہوتے ہیں''۔ادیب اور شاعر کا کام اندر کی آگ کو زندہ رکھنا ہے،اپنے اندر کی آگ ہو یا سماجی شکست و ریخت کی تکلیف اور دکھ،تیزی سے بدلتے سماجی رجحانات ہوں یا پھر ففتھ جنریشن وار سے پیدا ہونے والی خوفناک صورت حال،ایک سچا اور بڑا تخلیق کار اپنے سماج اور لوگوں کو اپنے وجود کا حصہ سمجھتا ہے،وہ سرحد ،مذہب اور قومیت کی قید سے آزاد ہو کر انسانیت کے لیے سوچتا ہے۔ایک سچا آرٹسٹ،اپناشاہ کار پینٹ کرتے ہوئے ان تمام رنگوں اور رویوں کو اپنی پینٹنگ کا حصہ بناتا ہے جس سے اس کے احساسات اور جذبات وابستہ ہوتے ہیں،نظمیں بھی تو پینٹنگ ہوتی ہیں،ایک قلم کار کی پینٹنگ،اس کے اندر اور باہر کے رنگوں کا حسین امتزاج،اس کے خوابوں کااظہار۔''جنگ اور اداسی کی نظمیں''بھی بنیادی طور پر تصویریں ہیں،اس سماج اور یہاں کے باسیوں کی تصویریں جنھیں بولنے، دیکھنے اور سننے کی پاداش میں گونگا،اندھا اور بہرہ کر دیا گیا۔ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی کی یہ نظمیں ''شہر آشوب'' ہیں،ایسے شہر کا جس کی روشنیاں اور لوگ،بیک وقت خون میں نہلا دیے گئے،یہ نظمیں اور تصویریں خواب اور محبت کے جرم میں تہہ تیغ کیے جانے والے ایسے معصوموں کا مرثیہ ہیں،جن پر کوئی رونے والا نہیں ،اورنگ زیب نیازی ان پر روئے،جن پر کوئی لکھنے والا نہیں تھا، ان پر لکھا،راشد کے ہر اس اندھے کباڑی کے خوابوں پر بات کی جن کا کوئی خریدار نہیں تھا،یہی ایک سچے اور حساس قلم کار کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عہدے،شہرت اور دولت کی ہوس میں اس قدر بہرہ نہ ہو کہ اسے اپنے لوگوں کی ہی چیخیں سنائی نہ دیں۔ ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی عصر جدید کے ایک اہم نقاد اور افسانہ نگار ہیں،ان کا شمار ایسے قلم کاروں میں ہوتا ہے جو سماج سے لاتعلق نہیں ہوتے،کسی مصلحت یا عہدے اور شہرت کی خاطر اپنے کانوں میں روئی ڈال کر سماج میں اٹھتی چیخوں پر خاموش رہنے والے ادیب وقت کی گرد ہو جاتے ہیں،وہی زندہ رہتا ہے جو بولتا ہے،دیکھتا اور لکھتا ہے،اورنگ زیب نیازی نے پہلے راستے کا انتخاب کیا اور اپنے قلم کو زنگ آلود نہیں ہونے دیا۔کتاب کا عنوان ''جنگ اور اداسی کی نظمیں''ہیں، یہ اداسی اور جنگ شاعر کی ذاتی نہیں ہے بلکہ اس جنگ کا بیانیہ ہے جو ہم پر مسلط کی گئی۔یہ نظمیں اس جنگ کا بیان ہیں جو چھہتر برس سے جاری ہے بلکہ ہندوستان کی اڑھائی تین سو سال کی تاریخ میں یہ سماج جس شکست و ریخت سے گزرا،یہ نظمیں اس کا انتہائی عمدہ اظہار ہیں۔ لسانی جنگ ہو یا پھر تہذیبی و ثقافتی،مذہبی ٹھیکیداروں کی اجارہ داری ہو یا پھر ملائوں کادوغلا پن،یہ نظمیں ان سب کا پردہ چاک کرتی ہیں۔یہ نظمیں ایک مسمار ہوتے شہر کے لوگوں کی اداسی کا بیان ہیں،وہ شہر جسے بنانے والوں نے بہت عمدگی سے سجایا تھا،آج وہ شہر روز بروز اجڑ رہا ہے،اس کے لوگ ختم ہو رہے ہیں، خواب مر رہے ہیں،آنکھیں بنجر ہو رہی ہیں،فصلیں اور کھیت کھلیان پراپرٹی ڈیلرز کے ہاتھوں تباہ ہو گئے،اس شہر کی اداسی کو اورنگ زیب نیازی جیسا حساس قلم کار ہی محسوس کر سکتا تھا ۔یہ نظمیں حال اور مستقبل کے علاوہ اپنے ماضی سے بھی جڑی ہوئی ہیں جیسے ''جنریشن ایکس کی خود کلامی'':انٹینا ،وی سی آر اور واک مینتختی سلیٹ اور عید کارڈاب بازار میں نہیں بکتےمیں روز گھنٹوں انتظار کرتا ہوںمگر مال روڈ پر کوئی تانگا نہیں چلتاسڑک پر کوئی پی سی او نہیں ہےجہاں سے میں تمہیں فون کر سکوںاس لیے مجھے اب زیادہ جھوٹ بولنا پڑتا ہےجب بجلی جاتی ہےتو لالٹین روشن کرنے کے لیے ماچس نہیں ڈھونڈنی پڑتیابا ٹی وی پر ڈرامہ دیکھتے ہیںاور اماں مصلے پر سو جاتی ہیںکیوں کہ اس وقت گھر کے سارے افراد گھر پر موجود نہیں ہوتےریل سیٹی بجاتی ہوئی آتی ہےاور میرے گائوں کے ریلوے اسٹیشن پر رکے بغیر آگے بڑھ جاتی ہےآج بھی ایک دن چوبیس گھنٹے کا تھالیکن وقت ہم سب کو یکساں نہیں ملتاایک زندگی ہم بسر کرتے ہیںاور ایک زندگی ہمیں بسر کرتی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
