379

کرونا کشمیر اور لاک ڈاون

کرونا وائرس پاکستان میں اپنا زور پکڑ رہا ہے بہتر ہو گا کہ کہا جا ئے پکڑ چکا ہے۔۔کیسز کی تعداد ایک ہزار کے ہندسے کو کراس کرنے کو ہے۔۔لیکن سوال یہ اٹھتا ہے۔۔۔کہ ہم نا خواندہ عوام کو  کیسے بتائیں کہ وائرس کیا ہے درحقیقت؟ اود ہمارا علاقہ و طن عزیز پاکستان کی ایسی پسماندہ بستی میں ہے جہاں اکثر لوگ یہ نہیں جانتے ہوتے کہ آج دن کیا ہے؟ اکثر لوگ یہ بھول جاتے ہیں آج تاریخ کیا ہے؟ وہاں کے لوگ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ کشمیر ایک ایسی جگہ ہے جہاں مسلمان قید ہیں اور ان پر ظلم ہو رہا ہے؟؟؟ تو پھر اللہ کو معلوم نہیں تھا کیا؟؟ جو انسان کی شہ رگ سے ذیادہ قریب ہے۔۔۔تو کیا اس سمیع اللہ کو ان مظلوم لوگوں کی چیخیں سنائی نہیں دیتی تھی؟؟ کیا کسی کے وہم وگمان میں بھی تھا کشمیریوں پر لگنے والے بار بار کے شٹ ڈاون لگنے پر دنیا کی خاموشی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے؟؟ دنیا اس لئے خاموش تھی کہ مسلمانوں کا خون سستا ہے۔۔۔

سریا کے بچوں کی آہ بکا کوئی معنی نہیں رکھتی؟؟؟  یا پھر روہینگیا اوز چائنہ میں مولی گاجر کی طرح کٹنے والے سر کوئی اہمیت نہیں رکھتے؟ مظلوم عورتوں کی عصمتوں کا تار تار ہونا کوئی حیثیئت نہیں رکھتا؟؟ جہاں مظلوم انسانیت بے بسی اور ظلم اور لاچارگی کا ثبوت بن کے رہ گئی ہو وہاں اللہ ربالعزت کا عرش ان آہوں ان چیخوں ان سسکیوں سے نہیں ہلے گا؟؟؟ جی ہاں جن کی آواز لالچی اور خود غر ضی سے مزین دنیا نے نہیں سنی اس قہار اللہ نے اس بات کو صرف سنا نہیں ہے بلکہ پورا بدلہ بھی دیا ہے۔۔۔نتیجتاً تمام دنیا لاک ڈاون ہو رہی ہے اورقدرت کا انتظام بھی کتنا انوکھا ہے ایک چند ملی میٹڑ کی نہ نظر آنے ولی چیز کے ذریعے پوری دنیا کی چولیں ہلا دیں۔۔۔ہر تد بیر کی جا چکی ہے معاملات پھر بھی کنٹرول سے باہر ہیں؟؟ اب ضرورت ہے حسن تدبیر کی اور وہ تدبیر توبہ کے سوا اور کیا ہو سکتی ے؟؟ اس خوف کی فضا کو توبہ کا در وازہ ہی بند کر سکتا ہے۔۔۔پوری دنیا خوف سے لرزاں ہو چکی ہےجس طرح کشمیر میں خوف کا راج تھا اس طرح پوری دنیا میں چپے چپے میں ایک سناٹا چھا چکا ہے۔۔۔اب اس غضب سے بچنے کا ایک ہی حل ہے۔۔۔اللہ کی رسی کو مظبوطی سے تھام لیں۔۔۔اپنی حدوں کو کراس کرنے کی وجہ سے جو آزمائش ہم پر ڈالی گئی ہے یہ ہمیں اللہ کی رضا اور اس کی بے پایاں محبت کی جانب لے جانے والی ہے۔۔۔اب ضرورت ہے آگاہی کی۔۔۔کیونکہ ہماری جہالت ہمیں ہر لمحہ موت کی طرف دھکیل رہی ہے۔۔۔ایک چھوٹا سا جگنو جب بے چین بلبل کو راستہ بھٹکتے دیکھتا ہے تو کیتا ہے خدا نے مجھے روشنی دی ہے۔۔۔میں تمہیں راستہ دکھاوں گا۔۔۔کیا آپ،میں اور ہم کورونا کے اس اندھیرے میں روشنی اور امید پھیلانے والا ایک جگنو نہیں بن سکتے؟؟؟ کیا ہم امید، آگاہی اور محبت پھیلا سلتے ہیں؟؟؟

کیا ہم اپنے علاوہ دوسروں کی بھی فکر کر سکتے ہیں؟؟ کیا ہم امید کا چراغ بن سکتے ہیں۔۔؟؟اگر ایسا ہو جا ئے تو گرونا وائرس کی یہ وبا جو چین سے شروع ہوئی تھی اس کا مقابلہ ہم متحد ہو کر کر سکتے ہیں۔۔۔ہم ایک جماعت بن کر اللہ کو منا سکتے ہیں۔۔۔لیکن۔اس کے لئیے ہمیں حکومتی اقدامات کو سنجیدہ لینا ہو گا۔۔۔کیونکہ قوم کا حاکم ان کا سر براہ ہوتا ہے۔۔اور اللہ کی مشیت ہی اسے نافذ کرتی ہے۔۔بس اللہ کی رسی کو مظبوطی سے تھام لیں اور   جو تدابیر حکومت بتا رہی ہے خدارا ان کا ساتھ دیں۔۔غیر ضروری طور پر گھروں سے باہر نا جائیں۔۔۔اور فرقہ واری جذ باتیت کے نام پر مزید مسائل کھڑے نہ کریں۔۔۔خدارا ایران اور اٹلی جیسے ترقی یافتہ مما لک بھی اس جنگ سے ہار چکے ہیں۔۔۔یہ مذاق نہیں ہے۔۔۔اس کو تیسری عالمی جنگ کہا جا رہا ہے۔۔۔اور ہماری قوم اس کے نقصانات سے بے خبر شیعہ سنی تنازعات میں مصروف ہے۔۔۔!!!دنیا اس وقت بہت بڑے بہران سے گزر رہی ہے صحت ،بزنس اور تعلیم کا تو دیوالیہ نکل ہی رہا ہے۔۔اب مذہبی تعصب کے بام پر اخلاق کا بھی دیوالیہ نکالا جا رہا ہے۔۔۔اگر ان سب باتوں کو چھڑ کر اب بھی ہم متحد نہ ہوئے تو کون جانتا ہےاگلے چند دنوں یا مہینوں تک یہ تناسب کتنے کس حد تک بڑھ جائے۔۔۔!
اگر مسجد خالی تھی
تو کیسینو بھی ویران تھا،
ہم بھول گئے اس جھگڑے میں
کے موضوع تو "انسان" تھا...!

بشکریہ اردو کالمز