290

گھرونا وائرس

آ۔آ۔آچھ۔آچھییینن۔ین۔ین۔ی۔شکر الحمدووواللہ۔ یہ میری پچھلے پندرہ منٹوں میں اُنیسویں چھینک تھی۔ رات کھانسی کا دورہ پڑا تھا لیکن نیند کی شدت سے پتہ نہیں لگا وہ کیسے رُک گیا تھا، یا ہو سکتا ہے دوبارہ کھانسی آئی ہی نا ہو۔ ورنہ ایک گھنٹے میں تین چار مرتبہ تو دائیں سے بائیں کروٹ بدل لیتی تھی۔ رات وہ بھی نہیں بدل سکی۔ اب یہ دو دن سے بخار کی نقاہت کا اثر تھا یا نیند سے اگلا درجہ مدہوشی والا تھا جو پوری رات کروٹ بدلے بغیر گزر گئی تھی۔ ایسا آج سے سات سال پہلے ہوا تھا جب میری پانچویں بیٹی پیدا ہوئی تو ساتویں دن عقیقہ اور بال منڈوانے کی رسم کی بجاۓ میری طلاق کی رسم ادا کر دی گئی۔ اب پانچ لڑکیوں کو جنم دینے کا صلہ تو ملنا ہی تھا۔ اُس رات بہت روئی، پھر تھک گئی، پھر بخار چڑھ گیا، پھر روئی، پھر کھانسی کا دورہ پڑا، پھر بے بس ہو گئی۔ اس رات نیند نہیں آئی تھی، مدہوش ہو گئی تھی ایک ہی کروٹ میں ساری رات گزر گئی۔ صبح اُٹھ کے سر پہ دوپٹہ باندھ لیا تھا۔ 

 اب کل رات سے سر میں درد تھا جو دوپٹہ باندھنے سے بھی نہیں ختم ہو رہا تھا۔ بخار تو کچھ کم تھا لیکن آج جھاڑو بھی لگانا ضروری تھا۔ دو چھٹیوں سے زیادہ کرتی تو مالکن کسی اور کو کام پر بلا لیتی۔ اس گھر میں کام کرنے میں آسانی تھی ایک بڑے حاجی صاحب تھے باقی سب عورتیں ہی تو تھیں۔ زیادہ مَردوں والا گھر ہوتا تو اب تک میں بھی کسی زینب کی طرع نوچ کے مسل دی گئی ہوتی اور میری لاش کے ٹکرے یا تو تیزاب والے ڈرم میں ملتے یا کسی گٹر میں بہا دئیے جاتے۔ کیا پتہ ٹکرے اور چھوٹے کر کے میرے گھر بوڑھی ماں کو دے دیتے، لے اَماں خود بھی یخنی بنا اور اپنی نواسیوں کو بھی بھون کے کِھلا۔ 

ہاۓ او۔ رباااا۔ یہ میں کیا فضول سوچی جا رہی ہوں۔ سب مرد ایسے تو نہیں ہوتے، اپنے حاجی صاحب کون سا ایسے ہیں۔ سارا دن میڈیکل سٹور چلاتے رات کو گھر آتے۔ کتنے نیک ہیں جب مجھے دوائی کی ضرورت پڑتی تب اپنی دراز کے نیچے رکھی دوائی مفت میں دے دیتے، ایسے سیمپل تو آتے بھی بہت مہنگے ہیں کیونکہ بار والے ملکوں سے آتے ہیں،  مالکن بتا رہی تھی، ایک دن جب بڑی بیٹی کو ملیریا کی دوائی مفت دی تھی۔

مالکن کی دونوں بیٹیاں یونیورسٹی جانے کے لئے تیار ہوئیں اور اپنے منہ کو ماسک سے ڈھانپ لیا۔ کام والی نے ان کو مبارک باد دی“ دئیو مبارک ہوے، لگدا کتے نرس دی نوکری مل گئی وا“ بڑی والی نے غصہ سے اس کی طرف دیکھا اور کہا باجی لگدا تسی ٹی وی نہیں دیکھیا۔ کرونا وائرس آرہا ہے۔ ہم اس سے بچنے کے لئے ماسک پہنا ہے۔“ گھرونا ویرس“ اے کی بلا جے، اوہو۔ گھرونا نہیں، کرونا وائرس باجی جی، ایک تو یہ پینڈو بھی ہر لفظ بگاڑ دیتے ہیں، دوسری بیٹی نے کہا اور تفصیل بتانے لگی کے کرونا وائرس میں پہلے نزلہ زکام ہوتا ہے جس سے چھینکیں آنا شروع ہو جاتی ہیں، پھر سر میں درد شروع ہوتا ہے اور جسم تپنا شروع ہو جاتا ہے۔ کھانسی کا دورہ پڑتا ہے اور بخار کی شدت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں۔ تین دن کے اندر مریض مر جاتا ہے۔ چائنہ کے اندر بہت لوگ مر رہے ہیں۔ اب تو پاکستان میں بھی آرہا ہے۔ 

ہاۓ اوو۔ ربااا۔ یہ سب کچھ تو میرے ساتھ بھی دو دن سے ہو رہا ہے۔ کام والی نے جلدی سے ناک سے بہتا پانی قمیض اٹھا کے صاف کیا اور زبردستی دانتوں کو جوڑ کے آتی ہوئی چھینک کو روکا۔ دوائی کون سی اس کی، کام والی نے سوال کیا۔ تم گھر جاتے ہوۓ ابا کے میڈیکل اسٹور سے ماسک لیتے جانا، بڑی بیٹی نے جواب دیا اور دونوں کریم سے منگوائی گاڑی میں بیٹھ کر یونیورسٹی چلی گئیں۔ کام والی باجی جھاڑو رکھ کر سیدھی مالکن کے کمرے کی طرف گئی اور اس سے چھٹی مانگ کے حاجی صاحب کے میڈیکل اسٹور کو بھاگ گئی، اس کو آج زندہ رہنا تھا اپنی پانج بیٹیوں اور بوڑھی ماں کی خاطر۔ اسے“ کرونا“ سے زیادہ اپنے“ گھرونا“ کی فکر تھی۔ 

دراصل یہ ایک چھوٹی سی مثال تھی کسی کے دماغ میں کرونا وائرس سے زیادہ خطرناک وائرس“ وہم“ ڈالنے کی۔ ہم مجموعی طور پر یہ کام پچھلے ستر سالوں سے کر رہے ہیں۔ پہلے ادوار میں یہ کام سست روی سے ہوتا تھا۔ لیکن جب سے میڈیا چینل شتر بے مہار ہوۓ ہیں تب سے اس وہم والے وائرس کا اسٹرائیک ریٹ بڑھ کے پچانوے فیصد ہو چکا ہے۔ اگر میڈیا“ کرونا وائرس“ کی احتیاطی تدابیر کا بتاتے ہوۓ ساتھ یہ خبر بھی سناۓ کے چائنہ کے شہر وہان میں آج ایک سو سے زیادہ مریض شفاء یاب ہو کر گھروں کو لوٹ گئے ہیں۔ شرح اموات کم ہو گئی ہیں۔ تو لوگوں کا امیونٹی سسٹم اس خبر سے بھی طاقتور ہو جاۓ گا۔ انسان کا اپنا امیونٹی سسٹم جتنا زبردست ہو گا اتنا ہی اس میں کسی بھی بڑے سے بڑے وائرس کا مقابلہ کرنے کی جرات ہو گی۔

 آپ کوئی زیادہ لمبی چوڑی دوائیوں کی فہرست نہ بنائیں۔ صرف بنیادی انسانی حفظان صحت کے اصُولوں کو مدنظر رکھتے ہوۓ صفائی پر زیادہ توجہ دیں۔ پانی کا استعمال زیادہ کر لیں۔ کھانے پینے میں بے احتیاطی نہ کریں۔ سب سے بڑھ کے اپنے آپ کو مضبوط رکھیں۔ ویسے اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا جاۓ یہ سب سنت عمل ہیں۔ بس کوئی سمجھے ذرا۔ 

جب ہم کسی کے دل میں وہم ڈالتے ہیں تو دراصل ہم اس کو یا تو خودکشی کی طرف دھکیل رہے ہوتے ہیں یا اس کو اس حالت تک پہنچا رہے ہوتے کے وہ مرنے سے پہلے سسکتا رہے۔ ہم پاکستان کے بھارت سے میچ جیتنے سے زیادہ خوش تب ہو رہے ہوتے، جب ہم لوگوں کے دِلوں میں وہم اور وسوسے ڈال کر ان کی زندگی آتش نمرود میں جھونک رہے ہوتے ہیں۔ 

یاد رکھیں قرآن کی سورت الناس کی آخری دو آیات میں بھی اس کا ذکر ہے“ اور جو لوگوں کے دِلوں میں وسوسے ڈالتا ہے۔ خواہ وہ جنات میں سے ہو یا انسانوں میں سے”۔

اب یہ کون انسان ہیں جو دِلوں میں وسوسے ڈال کر دوسرے انسان کا وجود کمزور کر رہے ہیں۔ یہ میں بھی ہو سکتا ہوں۔ یہ ہمارا میڈیا بھی ہو سکتا ہے۔ یہ میڈیکل اسٹور والا بھی ہو سکتا ہے۔ یہ مالکن کی دو بیٹیاں بھی ہو سکتی ہیں۔ یہ ماسک بنانے والی کمپنی کا مالک بھی ہو سکتا ہے۔ آئیں ہم سب انسانی بقاء کے لئے اس وسوسوں کے وائرس والے کھیل سے باہر نکلیں اور کائنات کے مالک کے سامنے جھک کر اپنے دِل سے ماسک اتار کر یہ اِلتجا کریں“ اے میرے رب ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔ راستہ اُن لوگوں کا جن پر آپ نے انعام فرمایا”۔

(اپنے قیمتی وقت میں بھی اس تحریر کو پڑھنے کا بے حد شکریہ۔)

بشکریہ اردو کالمز